امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے پاکستان کے لیے اقتصادی اور فوجی امداد کو حقانی نیٹ ورک اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائیوں سے مشروط کیا ہے۔
کمیٹی نے شدت پسندی کے خلاف استعداد بڑھانے کے لیے قائم فنڈ کی مد میں پاکستان کو آئندہ مالی سال کے دوران ایک ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی کی منظوری بدھ کو دی۔ یہ رقم اوباما انتظامیہ کی درخواست کردہ امداد سے 10 کروڑ ڈالر کم ہے۔
کمیٹی نے بعض رعایتوں کی بھی منظوری دی لیکن مجموعی طور پر امداد کو پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف اقدامات میں واشنگٹن کے ساتھ تعاون سے مشروط کیا گیا ہے۔
ان عسکریت پسند گروہوں میں القاعدہ اور طالبان کی ’’کوئٹہ شوریٰ‘‘ کے علاوہ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ بھی شامل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کی کمیٹی کا یہ فیصلہ پاکستان سے سرگرم شدت پسندوں کی افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے خلاف ہلاکت خیز حملوں پر قانون سازوں کے غصے و ناراضگی کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کابل میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والا منظم حملہ بھی حقانی نیٹ ورک کی کارروائی تھی۔ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں، اور امریکہ اسلام آباد پر زور دے رہا ہے کہ ان شدت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کی جائے۔
امریکی سینیٹ کی کمیٹی نے مالی سال 2012ء میں پاکستان کے لیے اقتصادی امداد کے حجم کا تعین نہیں کیا جس کے بعد یہ اوباما انتظامیہ پر منحصر ہو گا کہ وہ اس بارے میں اپنا فیصلہ کرکے سینیٹ کو اس سے آگاہ کرے۔
پاکستان کو امداد کی فراہمی کی منظوری 53 ارب ڈالر مالیت کے اُس مسودے کا حصہ ہے جس میں 2012ء کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے اخراجات اور بیرون ملک منصوبوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔
یہ مسودہ اب ایوان نمائندگان کو بھیجا جائے گا جہاں ایک ذیلی کمیٹی پہلے ہی پاکستان کو مشروط امداد کی فراہمی کی منظوری دے چکی ہے۔
پاکستان کو فوجی امداد 2009ء میں قائم کیے گئے اُس فنڈ کی مد میں دی جاتی ہے جس کا مقصد عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں پاکستانی فوج کی استعداد میں اضافہ ہے۔
پاکستان کے فوجی چھاؤنی والے شمالی شہر ایبٹ آباد میں مئی میں امریکی اسپیشل فورسز کے خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کئی امریکی قانون ساز پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔