امریکہ کی سینیٹر ڈائین فائنسٹائن نے شدت پسند تنظیم داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے یہ بات وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی سے واشنگٹن میں ملاقات میں کہی۔
طارق فاطمی اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں اُنھوں نے اہم امریکی عہدیداروں اور کانگریس کے ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
بدھ کو طارق فاطمی نے کیلیفورنیا سے سینیٹر ڈائین فائنسٹائن اور پینسلوینیا کے سینیٹر رابرٹ کیسی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جن میں انہوں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا، خصوصاً افغانستان میں امن اور دہشتگردی کے خاتمے کی لیے کوششوں کے موضوعات زیر بحث آئے۔
عراق اور شام میں سرگرم اس شدت پسند تنظیم نے تیزی سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں اپنا حلقہ اثر وسیع کیا ہے اور افغانستان، کویت، سعودی عرب، مصر، لیبیا اور تیونس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
امریکی عہدیدار داعش کے نظریات اور سرگرمیاں پھیلنے کے بارے میں شدید تشویش رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں امریکی سینیٹر نے پاکستان سے تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ داعش علاقے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش افغانستان میں بہت سے ناراض طالبان گروپوں کو اپنے ساتھ شامل کر رہی ہے۔ عامر رانا کے بقول پاکستان کے اندر بھی بہت سے شدت پسند گروپوں کے لیے داعش میں شمولیت کی کشش موجود ہے۔
’’داعش کی طرف سے دو طرح کا خطرہ ہے۔ ایک تو یہ کہ جو پہلے سے عسکری منظر نامہ ہے اس کے اندر اس کا بہت گہر اثر ہے۔ دوسرا انتہا پسندی کا جو عمل چل رہا ہے، اس میں عام آدمی انتہا پسندی کے رجحانات سے متاثر ہو رہا۔‘‘
یاد رہے کہ داعش اپنے نظریات دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے انٹرنیٹ کا مؤثر استعمال کر رہی ہے۔ عامر رانا نے کہا داعش ایک عالمی خطرہ ہے اور القاعدہ سے زیادہ سنگین ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بیرونی تعاون کی ضرورت ہو گی۔
’’اس معاملے میں پاکستان کو تعاون کی زیادہ ضرورت ہو گی امریکہ سے یا باقی مغربی ممالک سے کیونکہ داعش کا مرکز اس ریجن میں نہیں ہے۔ القاعدہ کا مرکز پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بنا تھا۔ جو بڑی شدت پسند تحریکیں تھیں، ان سب کے مراکز یہاں بھی تھے، اور پاکستان نے اس پر تعاون بھی کیا۔ چونکہ داعش کا یہاں مرکز نہیں ہے اور یہاں اس کا اثر آ رہا ہے تو اس لیے پاکستان کو بہت تعاون کی ضرورت ہو گی۔ جس طرح کا تعاون پاکستان نے امریکہ سے کیا تھا القاعدہ کے خلاف، میرا خیال ہے کہ اسی سطح کا تعاون پاکستان کو مستقبل میں درکار ہو گا امریکہ سے۔‘‘
پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں مگر کراچی میں ایک حملے میں داعش کا نام استعمال کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی شدت پسند تنظیمیں داعش سے متاثر ہو رہی ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کئی سابق کمانڈر بھی داعش میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کا یہ موقف رہا ہے کہ ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کسی بھی طرح کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔