ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ونڈ پاور کی ترقی کا معاہدہ ملک میں قابل تجدید توانائی کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم ہے اور اگر اس نوعیت کے مزید منصوبوں پریکسوئی سے کام کیا جائے تو بہت حد تک توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اتوار کو امریکی خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے پاکستانی حکام کے ساتھ شراکت داری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت صوبہ سندھ کے علاقے گھارو میں 150 میگا واٹ ونڈ پاور یعنی ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگا۔
امریکی نمائندے کے مطابق ان کے ملک کی ایک بڑی پاور کمپنی اے ای ایس کارپوریشن کے ساتھ مل کر شروع کیے جانے والے اس منصوبے سے پاکستان کے اندر بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے مواقع بھی اجاگر ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر عطا اللہ شاہ نے امریکہ کے ساتھ معاہدے کو نہایت خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قابل تجدید توانائی کی ترقی کی جانب صرف ایک قدم ہے کیوں کہ تاریخی طور پر عدم توجہی کا شکار رہنے والے اس شعبے میں اس وقت وہ بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں جس کی مدد سے توائی کے بحران پر فوری قابو پا نا ممکن ہو۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ متبادل توانائی خاص طور پر شمسی توانائی کی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں جنہیں اگر موثر طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو اگلے چار سے پاچ سالوں میں مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔
پروفیسرشاہ نے کہا ’’پاکستان میں توانائی کی ضرورت اگلے دس سے پندہ سالوں میں تین سے چار گناہ بڑھ جائے گی اور اس ضرورت کو پورا کر کے ہی ملک اپنی صنعتی اور معاشی ترقی کو یقینی بنا سکتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ متبادل توانائی کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ ‘‘
پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری اسٹریٹیجک مذاکرات میں توانائی کے شعبے کو خاص اہمیت حاصل ہے اور امریکی سفارت خانے کے بیان کے مطابق ونڈ پاور منصوبے کی شراکت داری گذشتہ ماہ واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کے دور کا ہی نتیجہ ہے۔
بیان کے مطابق منصوبے سے چھ لاکھ گھروں کی بجلی کی ضرورت پوری ہوگی اور ملک کا درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہوگا جس سے ہر سال 3.8 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اس منصوبے پر 32 ارب روپے لاگت آئے گی۔
پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی ترقی کے لیے باقاعدہ کام 2003 میں شروع ہوا تھا لیکن ابھی تک اس ضمن میں قابل ذکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جب کہ سرکاری اندازے کے مطابق اس شعبے کو ترقی دے کر کم از کم نوے ہزار میگا واٹ تک توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔
اس وقت ملک کی توانائی کی ضروریات کا ستر فیصد سے زائد انحصار تیل اور قدرتی گیس پر ہے جس کی درآمد پر بھاری زر مبادلہ بھی خرچ ہو رہا ہے۔
پروفیسرعطا اللہ شاہ کا کہنا ہے کہ سرکاری خزانے پر درآمدی بل کے بوجھ کو کم کرنے اور عوام کو توانائی کے مہنگے نرخوں سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر متبادل توانائی کے ذرائع کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔