پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں دومئی کو امریکی اسپیشل فورسز کے آپریشن میں القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کی کارروائی کے بعد دوطرفہ تعلقات میں کچھ تلخی تو پیدا ہوئی ہے لیکن اُن کے بقول دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حقیقی کامیابی کے لیے دونوں ملک ایک دوسرے سے تعاون ختم کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کے سلسلے میں رواں ماہ امریکہ کی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کادورہ پاکستان طے ہے اور اُنھیں توقع ہے کہ اس دورے سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور وہاں سے امریکی افواج کے کامیاب انخلا ء کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور انٹیلی جنس تعاون جاری رہے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ بعض امور پر اختلافات کے باوجود اس وقت افغانستا ن اور خطے کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں پاک امریکہ تعاون جاری رہے گا اورمیں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے ۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ پاکستانی علاقے میں امریکی فورسز کے آپریشن کے بعد سویلین حکومت اور پارلیمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس تمام معاملے پر پائے جانے والے شکوک شہبات کو دور کرنے میں مدد ملے۔
سیاسی پارٹیوں بالخصوص حزب مخالف اورمذہبی جماعتوں کے نمائندے ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے آپریشن کے بارے میں سویلین قیادت کی جانب سے واضح موقف نہ اپنانے پر تنقید کا نشانہ بنار ہے ہیں ۔ اُن کہنا ہے کہ فوج اور دفتر خارجہ کی طرف سے الگ الگ بیانات کی بجائے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تمام معاملے پر ایک مشترکہ بیان دینا چاہیئے ۔
دو روز قبل کور کمانڈز کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا واضح الفاظ میں کہنا تھا کہ مستقبل میں پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اگر پھرایسی کارروائی کی گئی تو پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے فوجی اور انٹیلی جنس تعان پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگا۔