دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے مفرور رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہو گیا تھا، جسے دونوں جانب سے عوامی بیانات کے ذریعے کم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر کیمرون منٹر نے یہ تسلیم کیا کہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو دھچکا لگا۔ ’’میرے خیال میں دو مئی کے واقعہ کے تناظر میں پاکستان نے بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس کے خیال میں اُس کی خود مختاری کا سوال پیدا ہو گیا تھا۔‘‘
امریکی سفیر نے کہا کہ اسی طرح امریکہ میں بھی سوالات کھڑے ہوئے کیونکہ اُنھیں یہ علم نہیں کہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی میں مقامی حکام کا کوئی کردار تھا یا نہیں۔ ’’دونوں جانب ناخوشگواری کا شدید احساس اس لیے بھی تھا کہ بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیے جا سکے۔‘‘
کئی مہینوں تک تعلقات میں سرد مہری کے بعد گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج نے ایک مرتبہ پھر امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ تعاون کو کھلے عام تسلیم کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ القاعدہ کے سینئر رہنما یونس الموریطانی اور اس کے دو ساتھیوں کی گرفتاری دراصل آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان اہم خفیہ معلومات کے تبادلے کا نتیجہ تھی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی اکتوبر میں اُس وقت الموریطانی کے گروپ کا تعاقب شروع کر دیا جب اسے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ بیرونی دنیا کے لیے خطرہ بننے جا رہے ہیں۔ ’’ہم نے کڑیوں سے کڑیاں ملانا شروع کر دیں اور جوں ہی ہمیں معلوم ہوا کہ یہ لوگ کوئٹہ کے مضافات میں چھپے ہوئے ہیں تو ہم نے ان کے اڈے پر چھاپہ مار کر اُنھیں گرفتار کر لیا۔‘‘
معروف تجزیہ کار حسن عسکری کا خیال ہے کہ یہ اعلان اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے مابین تعاون بحال ہو رہا ہے۔ ’’اُنھیں یہی کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اسی طرح دونوں ملک تنائج حاصل کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ تعاون جاری رہے گا اور دونوں ملک باہمی اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘
لیکن پروفیسر عسکری کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان دوبارہ تعاون کی نوید کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن پر اختلاف اور پاکستان میں سی آئی اے کے اہلکاروں کی تعیناتی جیسے بڑے معاملات پر اختلافات دور ہو گئے ہیں۔
امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی میں بعض عناصر اب بھی عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن پاکستانی فوج ان الزامات کو رد کرتی ہے۔
آئی ایس آئی کے ایک سابق عہدیدار بریگیڈیئر اسد منیر کا کہنا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی اب تک القاعدہ کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے اس لیے اس کی کارکردگی پر شکوک و شبہات بلا جواز ہیں۔
’’آئی ایس آئی نے ان تمام افراد کو سی آئی اے کی مدد سے گرفتار کیا، تو دونوں ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ دونوں کے لیے اچھے تعلقات قائم رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر ان کے درمیان بداعتمادی ہوئی تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ اگر یہ ساتھ نا چل سکے تو صدر اوباما کی افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کی حکمت عملی کی کامیابی بھی ممکن نہیں رہے گی۔‘‘
صدر اوباما 2014ء کے آخر تک افغانستان سے امریکی لڑاکا افواج کے انخلا کا اعلان کر چکے ہیں اور امریکی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ افغان فورسز کو سلامتی کی ذمہ داریوں کی احسن طریقے سے منتقلی کے لیے اُنھیں پاکستان کا تعاون درکار ہوگا۔
امریکی سفیر کیمرون منٹر کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے درمیان تعاون جاری رہنا چاہیئے۔ ’’گو کہ چند سوالات تاحال برقرار ہیں جیسا کہ ہماری سمت کیا ہے اور ہمارے روابط کی نوعیت کیا ہے، تاہم ہمارے درمیان تعلقات موجود ہیں اور رہیں گے۔ اور میں پرامید ہوں کہ آنے والے برسوں میں ہم بہت زیادہ پیش رفت کریں گے۔‘‘
امریکی انٹیلی جنس حکام نے حالیہ ہفتوں کے دوران کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور القاعدہ کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں یا ہلاکتوں سے دہشت گردی کے اس نیٹ ورک پر کاری ضرب لگی ہے۔ لیکن امریکی حکام نے عسکریت پسندوں کے خلاف متنازع ڈرون حملوں میں کمی کرنے کا تاحال کوئی عندیہ نہیں دیا ہے جو پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ سمجھے جاتے ہیں۔