تین سال بعد پاک امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات کی تیاری مکمل

(فائل فوٹو)

پیر کو شروع ہونے والے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان پانچ مختلف شعبوں میں ورکنگ گروپوں کی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات تین سال کے تعطل کے بعد پیر سے واشنگٹن میں شروع ہو رہے ہیں۔

مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز جب کہ امریکی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔

وزراء سطح کے اس اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، معیشت، انسداد دہشت گردی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے تشکیل دیئے گئے ورکنگ گروپوں کی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2010ء میں اسٹریٹیجک مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن دو مئی 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی خصوصی فورسز کے خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور بعض دیگر واقعات کے بعد مذاکرات کا یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

تاہم گزشتہ سال اگست میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے موقع پر اسٹریٹیجک مذاکرات کی دوبارہ بحالی کا اعلان کیا گیا تھا۔

افغانستان اور پاکستان میں ایک بار پھر شدت پسند کارروائیوں میں اضافہ، رواں سال کے اواخر میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اور کابل کے ساتھ واشنگٹن کے مجوزہ سلامتی کے معاہدے کے تناظر میں مبصرین دونوں ممالک کے اعلیٰ ترین سفارتکاروں کے مذاکرات کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔

افغان صدر حامد کرزئی نے قبائلی عمائدین کے لویہ جرگہ کی طرف سے افغانستان - امریکہ سکیورٹی معاہدے کی منظوری کے باوجود اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ان کی شرائط پر پہلے عمل درآمد کرے۔

اس مجوزہ معاہدے کے تحت نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی امریکہ افغانستان میں محدود حد تک اہنے فوجی رکھ سکتا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی افغانستان سے اس طرح واپسی ملک میں خانہ جنگی کا سبب بن سکتی ہے جو کہ نا صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرناک ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل خان وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے اس خطے سے متعلق طویل المدت مفادات بظاہر واضح نہیں اس لیے سرتاج عزیز کی سربراہی میں پاکستانی وفد کی کوشش ہو گی کہ امریکی ترجیحات کو جان سکیں۔

قانون سازوں اور کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ سلامتی کے امور کے علاوہ اسٹریٹیجک مذاکرات میں اقتصادی و تجارتی تعاون کو بھی ’’غیر معمولی‘‘ اہمیت دینی چاہیئے۔