پاکستان نے کہا ہے کہ اس کی سرزمین سے مبینہ طور پر سرگرم عسکریت پسندوں کے بارے میں امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا کا تازہ بیان انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں دو طرفہ تعاون کا آئینہ دار نہیں ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بیان دونوں ملکوں کے درمیان موجود تعاون سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی پیچیدہ معاملات ہیں جن سے نمٹنے کے لیے تمام متعلقہ فریقین کا قریبی تعاون ضروری ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کرتے آئے ہیں اور پاکستان چاہتا ہے کہ اس کی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں امریکہ سے تعاون جاری رکھنے پر تیار ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے بدھ کو کہا تھا کہ پاکستان اپنی سر زمین پر شدت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہو گیا ہے اور امریکہ پاکستان میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والے ان عسکریت پسندوں کو افغانستان میں تعینات امریکی افواج پر حملے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے گا۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ رواں ہفتے کابل کے حساس علاقے میں حملے کرنے والے جنگجوؤں کو تعلق بھی حقانی نیٹ ورک سے تھا۔
امریکہ کا موقف ہے کہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سرگرم حقانی نیٹ ورک سرحد پار افغانستان میں خصوصاً نیٹو اور افغان افواج کو نشانہ بنا رہا ہے اس لیے پاکستان ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے افغانستان کی جانب سرحد کی نگرانی کے لیے اضافی دستوں کی تعیناتی اور سرحد چوکیوں کے قیام کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو پاکستان کا موقف دہراتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ اُن کا ملک سرحد پار شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کا معاملہ اُٹھاتا رہا ہے، اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس مسئلے سے باہمی تعاون کے ذریعے نمٹا جائے۔