امریکی کانگرس کے وفد نے مسلح افواج میں خواتین، صنفی بنیادوں پر تشدد اور صنفی مساوات سمیت مختلف معاملات پر پاکستان حکام سے بات چیت کی۔
اسلام آباد —
امریکی کانگرس کے وفد نے بدھ کو پاکستان کا اپنا دورہ مکمل کیا۔ اس دورے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کی خواہش کا اعادہ کیا گیا۔
کانگرس کے وفد کی قیادت الاباما سے تعلق رکھنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی رکن اور ایوان کی تصرف کمیٹی کی ممبر مارتھا روبی کر رہی تھیں۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ 12 سے 14 مئی تک اس دورے کے دوران وفد نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری، سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک اور خواتین ارکان پارلیمان سے مختلف امور بشمول مسلح افواج میں خواتین، صنفی بنیادوں پر تشدد اور صنفی مساوات سمیت مختلف معاملات پر بات چیت کی۔
اس سے قبل منگل کو امریکی چیف آف نیول آپریشنز ایڈمرل جوناتھن گرینرٹ نے پاکستان کا دورہ مکمل کیا جس میں اُنھوں نے اسلام آباد اور کراچی میں وزیر اعظم نواز شریف اور اعلیٰ عسکری قیادت سے سلامتی سے متعلق مضبوط اشتراک کار کے فروغ اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل جل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ مہینوں میں اعلیٰ سطحی روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی اعلیٰ عسکری قیادت اور سفارتی روابط کو رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے تناظر میں بھی انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان ماضی کی طرح تضاد نہیں ہے۔
’’ظاہر ہے (امریکہ) کو جو تشویش ہے کہ ہمارے ہاں شمالی وزیرستان میں جو کچھ نا کچھ ہوتا ہے اُس کو وہ افغانستان کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہماری اپنی ترجیحات ہیں اور ہم ڈائیلاگ کے عمل میں جا رہے ہیں۔ ہماری بھی ترجیح ہے کہ دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹیں لیکن اس میں ایسا کوئی تضاد نہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔‘‘
سفارت خانے سے جاری ایک بیان کے مطابق امریکہ شورش سے نمٹنے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی امداد جاری رکھے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ 2002ء سے اب تک پاکستان سلامتی کے شعبے میں اعانت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات کی ادائیگیوں کی مد میں سولہ ارب ڈالر سے زیادہ وصول کر چکا ہے۔
سفارت خانے کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوششیں ضروری ہیں۔
پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں اقتصادی ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانا ناگزیر ہے۔
کانگرس کے وفد کی قیادت الاباما سے تعلق رکھنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی رکن اور ایوان کی تصرف کمیٹی کی ممبر مارتھا روبی کر رہی تھیں۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ 12 سے 14 مئی تک اس دورے کے دوران وفد نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری، سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک اور خواتین ارکان پارلیمان سے مختلف امور بشمول مسلح افواج میں خواتین، صنفی بنیادوں پر تشدد اور صنفی مساوات سمیت مختلف معاملات پر بات چیت کی۔
اس سے قبل منگل کو امریکی چیف آف نیول آپریشنز ایڈمرل جوناتھن گرینرٹ نے پاکستان کا دورہ مکمل کیا جس میں اُنھوں نے اسلام آباد اور کراچی میں وزیر اعظم نواز شریف اور اعلیٰ عسکری قیادت سے سلامتی سے متعلق مضبوط اشتراک کار کے فروغ اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل جل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ مہینوں میں اعلیٰ سطحی روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی اعلیٰ عسکری قیادت اور سفارتی روابط کو رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے تناظر میں بھی انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان ماضی کی طرح تضاد نہیں ہے۔
’’ظاہر ہے (امریکہ) کو جو تشویش ہے کہ ہمارے ہاں شمالی وزیرستان میں جو کچھ نا کچھ ہوتا ہے اُس کو وہ افغانستان کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہماری اپنی ترجیحات ہیں اور ہم ڈائیلاگ کے عمل میں جا رہے ہیں۔ ہماری بھی ترجیح ہے کہ دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹیں لیکن اس میں ایسا کوئی تضاد نہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔‘‘
سفارت خانے سے جاری ایک بیان کے مطابق امریکہ شورش سے نمٹنے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی امداد جاری رکھے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ 2002ء سے اب تک پاکستان سلامتی کے شعبے میں اعانت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات کی ادائیگیوں کی مد میں سولہ ارب ڈالر سے زیادہ وصول کر چکا ہے۔
سفارت خانے کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوششیں ضروری ہیں۔
پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں اقتصادی ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانا ناگزیر ہے۔