پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے دستیاب ویکسین کو محفوظ بنانے کا ایک نیا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے جس میں امریکہ کا ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی بھی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب کہ عالمی ادارہ صحت کے ویکسینیشن یونٹ کے سربراہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں 20 فیصد بچے تین جان لیوا بیماریوں تشنج، خناق اور کالی کھانسی کے خلاف معمول کے حفاظتی ویکسین سے محروم ہے، جن کی مجموعی تعداد دو کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے۔
ان بچوں کی نصف تعداد پاکستان، بھارت اور نائجیریا میں رہتی ہے۔
حالیہ برسوں میں آنے والی مختلف جائزہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے جن بچوں کو ویکسین کا کورس مکمل کروایا جاتا ہے اُن کی شرح 43 سے 62 فیصد ہے۔
اپریل 2012 میں شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ویکسینیشن پروگرام کی اس نسبتاً غیر موثر کارکردگی کی ایک بڑی وجہ وفاقی و صوبائی محکمہ صحت کی انتظامی صلاحیت میں کمزوریاں ہیں۔
گزشتہ ماہ پاکستانی عہدیداروں نے تصدیق کی تھی کہ عالمی ادرہ برائے اطفال کی طرف سے پاکستان کو دی گئی ویکسین مناست طریقے سے سٹور نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق پانچ بیماریوں کے خلاف مدافعت فراہم کرنے والی 13 لاکھ ڈالر مالیت کی اُس ویکسین سے چار لاکھ بچوں کو بیماریوں سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان میں قومی صحت کی وزیرِ مملکت سائرہ افصل تارڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا قیمتی ویکسین کے ضیاع کے بعد اُن کی وزارت دوا کو محفوظ کرنے کا ایک نیا طریقہ کار متعارف کروا رہی ہے جو بہت منظم ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
’’ہم جو طریقہ کار بنا رہے ہیں اس میں کوئی بھی شخص جب ہماری ویب سائٹ پر کلک کرے گا تو اس کو بالکل درست ڈیٹا ملے گا۔ جو حادثہ ہوا میں تو اس کو مصیبت کی شکل میں رحمت ہی کہوں گی۔‘‘
امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یوایس ایڈ‘ کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ویکسین کو مناسب درجہ حرارت پر رکھنے کے لیے الارم سسٹم بھی متعارف کروایا ہے۔
’’ہم نے الارم سسٹم لگا دیا ہے کہ جس وقت کسی بھی سٹور کا درجہ حرارت ضرورت سے نیچے جائے گا تو فوراً الارم بجے گا۔ حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کے مینیجر کو بھی فوراً پتا چلے گا چاہے رات کے دو بجے ہوں۔‘‘
ملک میں بہت بڑی تعداد میں بچوں کو حفاظتی ویکسین نہ ملنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا ملک میں ویکسین کی کوئی کمی نہیں اور صوبوں کو ان کے ضرورت سے دس فیصد زیادہ ویکسین فراہم کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کمیاں ہیں وہ صوبائی اور ضلعی سطح پر ہیں۔
ملک میں 23 ماہ سے کم عمر کے بچوں کو مہلک بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے ’حفاظتی ٹیکوں کا توسیعی پروگرام‘ 1978 سے کام کر رہا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ صحت صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد اب یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت اس پروگرام کے تحت بچوں کو جن آٹھ بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے اور قطرے دیے جاتے ہیں جن میں خسرہ، ٹی بی، پولیو، خناق، کالی کھانسی، تشنج، ہیپاٹائٹس اور فلو شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں شدت پسندوں کی جانب سے ملک بھر میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملوں سے اس بیماری کے خلاف مہم کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔ ملک کو سلامتی، توانائی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صحت پاکستان کی قومی ترجیحات میں کہیں بہت نیچے رہ گئی ہے جس کا اثر حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام پر بھی پڑا ہے۔