پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کے ضلع شکار پور میں رواں ہفتے مسلح افراد کی جانب سے چار ہندو نوجوانوں پر حملے کی جہاں ملک بھر میں مذمت کی جا رہی ہے وہیں پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقلیتی برادری بھی اس واقعے پر سراپا احتجاج ہیں۔
جمعہ کو کراچی میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں سمیت پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی سندھ میں شاخ اور پاکستان ہندو کونسل نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کرکے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئیں۔
نیوز کانفرنس سے خطاب میں پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار وینکوانی نے بتایا کہ کچھ شرپسند عناصر کی جانب سے ہندو برادری کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیے جانے کے واقعات بڑھ رہے ہیں جن میں قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، ہندوؤں کی املاک پر قبضے اور جبراً مذہب کی تبدیلی شامل ہیں اور اس وجہ سے ہندو برادری ہر وقت خوف کے عالم میں رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران 200 ہندو خاندان دوسرے ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر رمیش کا کہنا تھا کہ ہندو برادری کے افراد پاکستان کے پُر امن شہری اور کاروباری لوگ ہیں جو دن رات ملک کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اُنھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے میں مرنے والے افراد اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے لہٰذا ان کے لواحقین کو 50، 50 لاکھ اور زخمی ہونے والے ڈاکٹر کو 20 لاکھ روپے فوری معاوضہ ادا کیا جائے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے پیر کو ضلع شکار پور کے علاقے چک میں چند مسلح افراد نے ایک کلینک پر حملہ کرکے تین ہندو نوجوانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے میں وہاں موجود ایک ہندو ڈاکٹر شدید زخمی بھی ہوا۔
مقامی عہدے داروں کے بقول یہ واقعہ علاقے میں ہندو اقلیت اور مسلمان اکثریت کے درمیان جنسی حملے کے ایک مبینہ واقعے سے شروع ہونے والے اختلافات کے باعث پیش آیا۔
تاہم ڈاکٹر رمیش نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ واقعے کے ذمہ دار افراد ہندو برادری کے خلاف اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے اسے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ادھر صدر آصف علی زرداری نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور اب تک پولیس سات افراد کو گرفتار کر چکی ہے، جبکہ اس واقعے کے خلاف اندرونِ سندھ ہونے والے ہندو برادری کے احتجاج میں مسلمان بھی شریک ہوئے ہیں۔
صوبہ سندھ میں ہندو برادری بڑی تعداد میں آباد ہے اور ان میں سے بیشتر تجارت سے وابستہ ہیں۔
سندھ میں اگرچہ ہندو برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں پر ہندو خواتین کو جبراً شادی کے بعد مذہب کی تبدیلی کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ہزاروں سال سے یہاں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے عام ہندو اور مسلمانوں میں مذہبی تفریق کا عنصر بہت کم رہا ہے اس لیے واقعے کے اصل محرکات کچھ اور ہیں جن کو سامنے لانا ضروری ہے۔