انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دیگر چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی جب کہ ایک کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے صحافی ولی خان بابر قتل کے مقدمے میں دو اشتہاری ملزمان کو سزائے موت جب کہ چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
صحافی ولی بابر کو 13 جنوری 2011ء کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں اس وقت فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جا رہے تھے۔
ہفتہ کو عدالت نے کامران عرف ذیشان اور فیصل موٹا نامی ملزمان کو سزائے موت جب کہ فیصل محمود عرف نفسیاتی، نوید عرف پولکا، محمد علی رضوی اور شاہ رخ عرف مانی کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ایک اور ملزم شکیل کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا۔
ولی بابر کیس اس وقت ایک سنگین صورتحال اختیار کر گیا جب اس سے جڑے ایک گواہ اور وکیل سمیت چھ افراد یکے بعد دیگرے ہلاک کر دیے گئے۔
مقدمے کی حساسیت کے پیش نظر کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اس سماعت سنٹرل جیل کراچی میں منتقل کی گئی اور بعد ازاں کندھ کوٹ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس کی سماعت ہوئی۔
عدات نے 15 فروری کو اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے ہفتہ کو سنایا گیا۔
صحافی ولی بابر کو 13 جنوری 2011ء کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں اس وقت فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جا رہے تھے۔
ہفتہ کو عدالت نے کامران عرف ذیشان اور فیصل موٹا نامی ملزمان کو سزائے موت جب کہ فیصل محمود عرف نفسیاتی، نوید عرف پولکا، محمد علی رضوی اور شاہ رخ عرف مانی کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ایک اور ملزم شکیل کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا۔
ولی بابر کیس اس وقت ایک سنگین صورتحال اختیار کر گیا جب اس سے جڑے ایک گواہ اور وکیل سمیت چھ افراد یکے بعد دیگرے ہلاک کر دیے گئے۔
مقدمے کی حساسیت کے پیش نظر کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اس سماعت سنٹرل جیل کراچی میں منتقل کی گئی اور بعد ازاں کندھ کوٹ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس کی سماعت ہوئی۔
عدات نے 15 فروری کو اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے ہفتہ کو سنایا گیا۔