پاکستان تین دہائیوں سے زائد عرصے سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا اب بھی ایک بڑا ملک ہے جہاں اندارج شدہ افغان پناہ گزینوں کی تعداد 15 لاکھ ہے جب کہ پاکستانی حکام کے بقول لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں افغان پناہ گزین قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم ہیں۔
طویل عرصے تک میزبانی کرنے والا ملک پاکستان اب چاہتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل جلد مکمل ہو۔ پاکستانی حکام کا موقف رہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی چاہتے ہیں۔
’’ ہماری کوشش ہے کہ وہ (افغان مہاجرین) واپس چلے جائیں افغانی ہیں ان کا تو اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مجبور ہم (انھیں) نہیں کر سکتے ہیں زبردستی بھی نہیں کر سکتے ہیں زبردستی کرنا بھی نہیں چاہتے۔۔۔۔ اُن کی 35 سے 40 سال مہمان نوازی کی، نہیں چاہتے کہ مسئلہ خراب ہو جائے لیکن افغان حکومت کے ساتھ مل کر یہ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ وہاں (افغانستان) پر ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ رضاکارانہ طور پر (مہاجرین) واپس چلے جائیں ہمارے ملک پر ان کا بہت بڑا بوجھ ہے جو ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یعنی ’یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق پاکستان سے اپنے آبائی وطن واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے اور 2016ء کے پہلے چھ ماہ میں صرف پانچ ہزار افغان پناہ گزین پاکستان سے واپس گئے ہیں۔
افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں سست روی کی بڑی وجوہات میں افغانستان میں امن و امان کی خراب صورت کے علاوہ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی بھی ہے۔
حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین سید حسین علمی بلخی نے بھی اعتراف کیا تھا کہ افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
’’آپ جانتے ہیں کہ جو پناہ گزین افغانستان واپس جانا چاہتے ہیں، سلامتی کی خرات صورت حال کے باعث اُن کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔ 2015 کی آخری چھ ماہ میں افغانستان واپس آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بہت ہی کمی رہی۔‘‘
پاکستان میں مقیم افغان نوجوان صادق خان کہتے ہیں کہ اُن کا دل اب اسی ملک میں لگ گیا ہے اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ یہاں ہی رہنا چاہتے ہیں۔
’’یہ ملک اچھا لگتا ہے کیوں کہ پیدا یہیں ہوا ہوں۔۔۔۔ یہاں ہم بہت خوش ہیں۔۔۔۔ اب ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم یہاں پردیسی ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی اسلام آباد میں ترجمان دنیا اسلم خان کہتی ہیں کہ اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں قیام کے لیے عارضی طور پر جو کارڈ جاری کیے گئے تھے اُن کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے۔
’’افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کے لیے اس سال حکومت پاکستان نے عبوری انتظام کے طور پر صرف چھ ماہ کی توسیع دی تھی جو کہ 30 جون کو ختم ہو رہی ہے تو (اس صورت حال میں) افغانوں میں یقینناً اضطراب پایا جاتا ہے اور یو این ایچ سی آر کو بھی تشویش ہے کہ جلد از جلد حکومت پاکستان اپنا نیا لائحہ عمل کا اعلان کرے تاکہ جو غیر یقینی کی صورت حال ہے وہ ختم کی جا سکے۔‘‘
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اور عالمی برادری مل کر افغانستان میں ایسے حالات پیدا کریں تاکہ مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔