اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق رواں سال اب تک صرف پانچ ہزار افغان مہاجرین اپنے وطن واپس گئے ہیں۔
اسلام آباد میں ’یو این ایچ سی آر‘ کی ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 2014 سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
’’2014ء سے اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ واپسی کے عمل میں بتدریج کمی آئی ہے اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ 2014ء میں الیکشن ہونے تھے تو غیر یقینی صورت حال تھی لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ آنے والے دن افغانستان میں کیا لے کر آئیں گے ۔۔۔ ۔۔۔۔ اس سال بھی واپسی کا عمل کافی سست ہے اور اب تک صرف پانچ ہزار کے قریب افغان مہاجرین پاکستان سے واپس گئے ہیں۔‘‘
پاکستان میں اس وقت 15 لاکھ اندراج شدہ افغان مہاجرین آباد ہیں جب کہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں افغان ایسے ہیں جن کے کوائف کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
’یو این ایچ سی آر‘ کی ترجمان دنیا اسلم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کے باعث افغان پناہ گزین بھی تذبذب کا شکار ہیں۔
’’پاکستان میں تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین آباد ہے پاکستان کے چاروں صوبوں میں اور ان کو قیام کے لیے جو کارڈ حکومت پاکستان اور نادرا کی جانب سے جاری ہوئے تھے ان کی مدت صرف چھ مہینے کے لیے تھی جو جون کے آخر میں اختتام پذیر ہو رہی ہے تو یقینناً افغان مہاجرین میں اضطراب کی کیفیت ہے ان کو نہیں معلوم کہ 30 جون کے بعد ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے توسیع ملے گی یا نہیں ملے گی ۔۔۔ پھر جو بارڈر پر حالات ہیں یہ یو ان ایچ سی آر کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے اور یہ ہر افغان مہاجر کے لیے جو اس وقت پاکستان میں مقیم ہے ان کے لیے بھی یہ برابر تشویش کا باعث ہے۔‘‘
گزشتہ سال کے اوائل میں پاکستان میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے کوائف کا اندراج کیا جائے گا، لیکن یہ عمل تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستانی حکام کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ افغانوں کی اپنے ملک میں واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عالمی برادری بھی اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات اور اُس کے بعد شدت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ کے باعث پاکستانی حکام افغانستان سے اپنی سرحد کی نگرانی بڑھانے پر زور دیتے رہے ہیں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ سرحد کے آرپار غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنا دونوں ملکوں کے مفاد ہے اور اس ہی سلسلے میں طورخم پر سرحدی گیٹ کی تعمیر شروع کی گئی جس سے دونوں ملکوں کی فورسز کے درمیان فائرنگ تبادلہ بھی ہوا۔
اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی روابط جاری ہیں وہیں پاکستان میں سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو مذاکرات کے لیے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔