امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ افغانستان کی بدلتی صورت حال میں امریکی خفیہ ادارے 'سی آئی اے' کے ڈائریکٹر ولیم برنس کا دورۂ اسلام آباد اور عسکری قیادت سے ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں کا حصہ ہے۔ اور یہ بین الاقوامی برادری کی افغانستان میں تشویش اور دلچسپی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں وائس آف امریکہ کے ثاقب الاسلام کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں سفیر اسد امجید خان نے کہا کہ افغانستان کی بدلتی صورتِ حال پر کہا کہ واضح طور پر خانہ جنگی اور تشدد ٹل گیا ہے۔ افغانستان میں ایک حکومت موجود ہے اور اب بین الاقوامی برادری چاہے تو افغانستان کے ساتھ بات چیت کرے یا افغانستان کو تنہا چھوڑ دے، لیکن دونوں کے نتائج مختلف ہوں گے۔
امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی اس تشویش پر کہ آیا افغانستان کی سرزمین القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر سکتی ہیں؟ اسد مجید نے کہا کہ فی الحال اس کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ان کے بقول افغانستان کی صورتِ حال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے ۔ لیکن پاکستان نے اپنی توقعات کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ہم افغانستان میں استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں ایک حکومت موجود ہے اور بین الاقوامی برادری کو اس کے ساتھ کام کرنا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سرزمین نہ صرف کسی پڑوسی ملک بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ طالبان قیادت نے افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے سے متعلق وعدے کیے ہیں جسے انہوں نے کئی بار دہرایا ہے۔ ان کے بقول طالبان یقینی طور پر ان یقین دہانیوں اور وعدوں کا احترام کریں گے۔
افغانستان سے فوجی آپریشن کے خاتمے کے 10 روز بعد پہلی مرتبہ کابل ایئرپورٹ سے انخلا کرنے والے مسافروں کی ایک پرواز کو جانے کی اجازت دینے کے طالبان سے فیصلے کو اسد مجید خان نے سمجھداری پر مبنی فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ بات چیت نتیجہ خیز ہے اور یہ ان چیلنجز کو حل کرنے میں مدد دے رہی ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان انخلا کے عمل میں مدد اور سہولت فراہم کرتا رہا ہے۔ اسلام آباد اُن تمام لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے جو افغانستان سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ تاہم اب افغانستان سے کون باہر آ سکتا ہے اور کون نہیں؟۔ یہ افغانستان کے ذمہ داران کا فیصلہ ہے۔
ان کے بقول، "پاکستان نے افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند 13 ہزار سے زائد لوگوں کی مدد کی ہے اور پاکستان مکمل دستاویزات کے حامل افغان شہریوں سمیت تمام افراد کو فضائی اور زمینی انخلا کی مدد دینا چاہتا ہے۔"