طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت کی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے جسے عبوری کابینہ کا نام دیا گیا ہے۔ کیا اس میں افغانستان میں آباد تمام قومیتوں اور اقلیتوں کی نمائندگی ہے؟ کیا یہ ایک Inclusive حکومت ہے؟ کیا یہ کابینہ ان وعدوں کے مطابق ہے جو طالبان نے عالمی برادری سے کئے تھے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے پیش نظر ہیں۔
رستم شاہ مہمند افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اور افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے اس اعلان شدہ کابینہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ میں ایک دو تاجک اور ازبک ہیں لیکن یہ Inclusive کابینہ بہرحال نہیں ہے۔ اور جو وعدے انہوں نے کئے تھے، کابینہ ان وعدوں کے مطابق نہیں ہے۔
لیکن طالبان کہتے ہیں کہ کہ یہ عبوری کابینہ ہے۔ اس میں اضافہ ہو گا۔ اور نئ کابینہ بنے گی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں وقت دینا ہو گا۔ ان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ کابینہ کا اعلان کیوں نہیں کرتے, اس لئے انہوں جلدی میں کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اور عجلت میں یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ کن کن اقلیتوں کو کہاں اور کس لیول کی نمائیندگی دی جائے۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خود طالبان کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور ممکن ہے کہ آپس میں کچھ اختلافات بھی ہوں. اس لئے انہیں کچھ وقت دیا جانا چاہئیے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگست کے مہینے میں جو کچھ ہوا, طالبان اس کے لئے ذہنی طور پر بقول ان کے تیار نہ تھے کہ وہ اتنی جلدی پورے افغانستان کو شامل کر سکتے، اس لئے ان کو وقت دینا ہو گا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس کابینہ کو دیکھنے کے بعد کیا دنیا ان کے وعدوں پر اعتبار کرے گی? تو ان کا جواب تھا کہ فی الحال نہیں۔ لیکن اگر انہوں نے آگے چل کر ایسی کابینہ بنائی جو پوری طرح نمائندہ ہو اور وہ ڈیلیور کرنا شروع کر دیں اور معیشت کی درستگی کا عمل شروع ہو جائے، تو پھر ان پر بھروسہ نہ کرنے کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے اور اس لحاظ سے یہ ان کے لئے ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ ورنہ بصورت دیگر آہستہ آہستہ عوام کا رد عمل آنا شروع ہو جائے گا اور چونکہ معیشت کے مسائل بڑے گمبھیر ہیں، اس لئے ان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ لیکن انہیں حالات کو درست سمت میں ڈالنے کے لئے وقت درکار ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان میں جو احتجاج ہو رہے ہیں اور طالبان جس طرح ان سے نمبٹ رہے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی موجودہ جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا تو ان کا جواب تھا کہ اسے اس سیاق و سباق میں دیکھنا چاہئیے کہ اس وقت نہ تو افغانستان میں کوئی پولیس ہے، نہ سول ایڈمنسٹریشن کے لوگ موجود ہیں اور سول انتظامیہ کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ اور جو لوگ اس وقت انتظام چلا رہے ہیں ان کی نہ اس سلسلے میں کوئی تربیت ہے نہ انہیں قانون کا پتہ ہے۔ اور چونکہ اس وقت لاء انفورسمنٹ کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں ہے، اس لئے یہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے جو افسوس ناک ہے۔ لیکن باقاعدہ پولیس فورس کی عدم موجودگی میں غیر تربیت یافتہ رضا کار اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں اس لئے طالبان کو وقت دینا ہو گا۔
ڈاکٹر حسین یاسا جرمنی میں مقیم افغان صحافی اور رائٹر ہیں۔ نئ افغان کابینہ کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کابینہ کو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ طالبان نے اپنے مختلف دھڑوں کو نمائندگی دیتے ہوئے ان کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کے بقول یہ کسی بھی طور نہ تو پروفیشنل کابینہ ہے نہ Inclusive حکومت نظر آتی ہے۔ اس میں آپ دیکھیں تو حقانی خاندان کے بیک وقت چار وزراء نظر آئیں گے۔ علاوہ ازیں متعدد وزراء وہ ہیں جو اقوام متحدہ کی اس فہرست میں شامل ہیں جن پر تعزیرات عائد ہیں۔
ڈاکٹر یاسا کا کہنا تھا کہ جس طرح خواتین کے احتجاج سے نمٹا گیا یا پنج شیر میں حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ طالبان اپنا اصل رنگ دکھانے کے لئے بہت جلدی میں ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب دنیا کے ملکوں کا کیا رد عمل ہو گا، ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ یوروپی ملکوں سمیت کئی ملک پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر شریعت کا نفاذ ہوا تو وہ احتیاط سے کام لیں گے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے جرمنی نے کہا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد کا کام تو جاری رہے گا۔ لیکن اس کے علاوہ اور کسی مدد اور تعاون کا انحصار طالبان کے رویے اور کردار پر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جو اور کچھ ممالک طالبان کے لئے تھوڑا سا نرم گوشہ رکھتے تھے، وہ بھی اس وقت محتاط نظر آرہے ہیں۔ جیسے ایران کی وزارت خارجہ نے بقول ان کے پنج شیر پر حملے اور وہاں ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال ہر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ جو طالبان کے آنے سے پہلے خوش فہمی کی فضا تھی اور طالبان اپنی جس بدلی ہوئ سوچ کا خاکہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے، اس میں اور حکومت میں آنے کے بعد ان کے رویے میں فرق نظر آرہا ہے۔