پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام اُمور بشمول مسئلہ کشمیر بامعنی مذاکرات چاہتا ہے۔
یہ بات وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے ملائیشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم "آسیان" کے بائیسویں وزارتی اجلاس کے موقع پر کہی۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق سرتاج عزیز نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات حالیہ مہینوں میں سرحد اور متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلوں کے بعد ایک بار پھر خاصے کشیدہ ہو چکے ہیں۔
رواں ہفتے ہی بھارتی کشمیر میں ہونے والے ایک حملے کے بعد بھارتی عہدیداروں کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ اُنھوں نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے جس کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا۔
تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان پر فوری طور پر الزام لگانا مناسب نہیں ہے، یہ چیزیں حقائق کی بنیاد پر ہونی چاہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ جب بھی کسی چیز کا الزام پاکستان لگایا جائے گا اُس کے ٹھوس شواہد بھی دیئے جائیں گے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے اس سے قبل بھی بھارت کے ایسے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
بھارت نے رواں ماہ دونوں ملکوں کے مشیران قومی سلامتی کی ملاقات تجویز کی ہے جس پر پاکستان تاحال غور کر رہا ہے۔
کوالالمپور میں ہونے والے اجلاس میں سرتاج عزیز نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج نے کامیابی کے ساتھ ملک میں دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
پاکستان کی فوج کی طرف سے گزشتہ سال جون میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شمالی وزیرستان میں بھرپور کارروائی شروع کی تھی اور حکام کے مطابق یہاں اب تک 2800 سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کر کے نوے فیصد سے زائد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔
فوجی آپریشن سے حاصل ہونے والے نتائج کو امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری قابل ستائش قرار دیتی ہے۔