پاکستان میں پانی سے متعلق ادارے اور ماہرین حالیہ برسوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں آبی ذخائر کم ہو رہے ہیں اور اگر اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں جس طرح پانی کو صنعتوں، زراعت، گھروں اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ اُن کے بقول ’’مجرمانہ‘‘ غفلت کے مترادف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی کو اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے جیسا کہ ہمارے آبی ذخائر لا محدود ہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت کا مسئلہ صرف ملک سے باہر پیدا کردہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات داخلی بھی ہیں۔
تاہم اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر پڑوسی ملک بھارت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سندھ طاس معاہدے پرمکمل تعاون نہیں کر رہا ہے۔
خواجہ آصف نے مطالبہ کیا کہ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے پر اپنا تعمیری کردار ادا کرے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس معاہدے کے تحت واشنگٹن میں عالمی بینک کے زیر اہتمام مذاکرات ہوئے تھے۔
پاکستان اور بھارت نے 1960ء میں عالمی بینک کی نگرانی میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔
پاکستان کا اعتراض ہے کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں کشن گنگا اور راتلہ نامی بجلی کے پیداواری منصوبوں کے لیے پاکستان کے حصے کا پانی استعمال کر رہا ہے۔
لیکن بھارت اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق وہ اپنے حصے کے پانی کو ہی استعمال میں لا رہا ہے۔