سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں۔میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر تہران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’اہم پیش رفت‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر اثرات مرتب ہونے چاہیئں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تصادم کی صورت میں ہمارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں قانون ساز اور تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ اس معاہدہ سے خطے اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔
سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں جس سے آئندہ سال کے اواخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور وہاں قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی۔
’’جان کیری نے دو باتیں اچھی کی ہیں کہ 2003ء میں ایرانی پیش کش کو ضائع کیا گیا جب ان کے پاس 164 سنٹری فیوجز تھے اب 19 ہزار ہیں اور دوسرا انہوں نے پوچھا کہ جنگ کے علاوہ اگر معاہدہ نا کرتے تو اس کا متبادل کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں۔ ’’میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔‘‘
امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے وزارئے خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے جنیوا میں طویل مذکرات کے بعد اتوار کو اعلان کیا کہ تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے وہ ابتدائی معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔
ہفتے کو دیر گئے واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ابتدائی چھ ماہ میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں جن میں یورنیم افژودہ کرنے کی اس کی صلاحیت، افژودہ یورنیم کا ذخیرہ، اس کے سینٹری کی تعداد اور استعداد اور اراک ری ایکٹر میں ہتھیار تیار کرنے کی اہلیت رکھنے والی پلوٹونیئم کا ذکر ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آئندہ چھ ماہ میں امریکہ اور دوسرے ممالک ’’ جامع حل کے لیے مذاکرات پر کام کریں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاہدے پر درست انداز میں عمل درآمد اور ایران پر عائد تعزیرات میں نرمی ہی سے حالات اور تعلقات میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔
دفاعی اور خارجہ امور کے ماہر حسن عسکری رضوی ایران، امریکہ تعلقات اور عالمی طاقتوں سے اس معاہدے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’اگر یہ تعلقات کشیدہ رہتے ہیں تو ایک تو ایران پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ غالباً امریکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کر کے ایران کے خلاف کارروائی کر سکے گا۔ دوسرا مسئلہ امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے ایرانی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی الجھا ہوا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نفاذ پر اسلام آباد کو موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ واشگٹن سے کہے کہ اربوں ڈالر کے پاکستان، ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے سے متعلق اپنی مخالفت ترک کرے۔
ایران شام میں بشارالاسد حکومت کی حمایت کرتا ہے اور پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی اور معاہدے پر اتفاق کے بعد تہران اور دمشق کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جارحیت کے امکانات میں کمی بھی ممکن ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تصادم کی صورت میں ہمارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں قانون ساز اور تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ اس معاہدہ سے خطے اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔
سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں جس سے آئندہ سال کے اواخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور وہاں قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی۔
’’جان کیری نے دو باتیں اچھی کی ہیں کہ 2003ء میں ایرانی پیش کش کو ضائع کیا گیا جب ان کے پاس 164 سنٹری فیوجز تھے اب 19 ہزار ہیں اور دوسرا انہوں نے پوچھا کہ جنگ کے علاوہ اگر معاہدہ نا کرتے تو اس کا متبادل کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں۔ ’’میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔‘‘
امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے وزارئے خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے جنیوا میں طویل مذکرات کے بعد اتوار کو اعلان کیا کہ تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے وہ ابتدائی معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔
ہفتے کو دیر گئے واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ابتدائی چھ ماہ میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں جن میں یورنیم افژودہ کرنے کی اس کی صلاحیت، افژودہ یورنیم کا ذخیرہ، اس کے سینٹری کی تعداد اور استعداد اور اراک ری ایکٹر میں ہتھیار تیار کرنے کی اہلیت رکھنے والی پلوٹونیئم کا ذکر ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آئندہ چھ ماہ میں امریکہ اور دوسرے ممالک ’’ جامع حل کے لیے مذاکرات پر کام کریں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاہدے پر درست انداز میں عمل درآمد اور ایران پر عائد تعزیرات میں نرمی ہی سے حالات اور تعلقات میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔
دفاعی اور خارجہ امور کے ماہر حسن عسکری رضوی ایران، امریکہ تعلقات اور عالمی طاقتوں سے اس معاہدے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’اگر یہ تعلقات کشیدہ رہتے ہیں تو ایک تو ایران پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ غالباً امریکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کر کے ایران کے خلاف کارروائی کر سکے گا۔ دوسرا مسئلہ امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے ایرانی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی الجھا ہوا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نفاذ پر اسلام آباد کو موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ واشگٹن سے کہے کہ اربوں ڈالر کے پاکستان، ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے سے متعلق اپنی مخالفت ترک کرے۔
ایران شام میں بشارالاسد حکومت کی حمایت کرتا ہے اور پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی اور معاہدے پر اتفاق کے بعد تہران اور دمشق کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جارحیت کے امکانات میں کمی بھی ممکن ہے۔