امریکہ کے صدر براک اوباما نے ان سفارتی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ طے پایا۔
دنیا کی چھ بڑی طاقتیں اور ایران کے نمائندے جنیوا میں مذاکرات کے بعد اس ابتدائی معاہدے پر متفق ہوگئے جس کے تحت تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا جا سکے گا۔
ہفتے کو دیر گئے واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ابتدائی چھ ماہ میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں جن میں یورنیم افژودہ کرنے کی اس کی صلاحیت، افژودہ یورنیم کا ذخیرہ، اس کے سینٹری کی تعداد اور استعداد اور اراک ری ایکٹر میں ہتھیار تیار کرنے کی اہلیت رکھنے والی پلوٹونیئم کا ذکر ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آئندہ چھ ماہ میں امریکہ اور دوسرے ممالک ’’ جامع حل کے لیے مذاکرات پر کام کریں گے۔‘‘
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے جنیوا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا اصل مقصد ایران کے ساتھ ’’جامع‘‘ معاہدے تک پہنچنا ہے۔ ان کے بقول ایران پر ’’بنیادی تعزیرات‘‘ آئندہ چھ کے لیے بدستور برقرار رہیں گی۔
ایران نے اپنے جوہری پروگرام کی نگراںی کے لیے زیادہ شفافیت دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اس کے بدلے امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اسے محدود اور عارضی ریلیف فراہم کریں گے لیکن تیل کی برآمد، بینکاری اور معاشیات پر تعزیرات برقرار رہیں گے۔
یہ معاہدہ جنیوا میں ان سفارتکاروں کے درمیان چار روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے تہران اور مغرب کے درمیان جوہری تنازع کے جامع حل تک پہنچنے کی کوششوں کو وقت مل سکے گا۔
فرانس کے وزیر خارجہ لوراں فابیئوس کے مطابق یہ معاہدہ ’’ سلامتی اور استحکام‘‘ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس معاہدے کے بارے میں تنقید کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری ایران کو بہت سہولت دے رہی ہے۔ تاہم مسٹر کیری کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کو مزید محفوظ بنائے گا۔
اسرائیل امریکہ کا اہم اتحادی اور ایران کے روایتی حریف ہے۔
عالمی طاقتیں یہ باور کرتی آئی ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسی لیے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ تہران اس بات پر مصر رہا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پارلیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن ایران کے ساتھ مذاکرات کی سربراہی کرتی آئی ہیں جن کا مقصد اس بات کا تعین کرنا تھا کہ ایران کو کس حد تک یورینیم افژودہ کرنے کی اجازت ہو اور اس پر عائد پابندیاں کس حد تک نرم کی جائیں۔
دنیا کی چھ بڑی طاقتیں اور ایران کے نمائندے جنیوا میں مذاکرات کے بعد اس ابتدائی معاہدے پر متفق ہوگئے جس کے تحت تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا جا سکے گا۔
ہفتے کو دیر گئے واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ابتدائی چھ ماہ میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں جن میں یورنیم افژودہ کرنے کی اس کی صلاحیت، افژودہ یورنیم کا ذخیرہ، اس کے سینٹری کی تعداد اور استعداد اور اراک ری ایکٹر میں ہتھیار تیار کرنے کی اہلیت رکھنے والی پلوٹونیئم کا ذکر ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آئندہ چھ ماہ میں امریکہ اور دوسرے ممالک ’’ جامع حل کے لیے مذاکرات پر کام کریں گے۔‘‘
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے جنیوا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا اصل مقصد ایران کے ساتھ ’’جامع‘‘ معاہدے تک پہنچنا ہے۔ ان کے بقول ایران پر ’’بنیادی تعزیرات‘‘ آئندہ چھ کے لیے بدستور برقرار رہیں گی۔
ایران نے اپنے جوہری پروگرام کی نگراںی کے لیے زیادہ شفافیت دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اس کے بدلے امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اسے محدود اور عارضی ریلیف فراہم کریں گے لیکن تیل کی برآمد، بینکاری اور معاشیات پر تعزیرات برقرار رہیں گے۔
یہ معاہدہ جنیوا میں ان سفارتکاروں کے درمیان چار روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے تہران اور مغرب کے درمیان جوہری تنازع کے جامع حل تک پہنچنے کی کوششوں کو وقت مل سکے گا۔
فرانس کے وزیر خارجہ لوراں فابیئوس کے مطابق یہ معاہدہ ’’ سلامتی اور استحکام‘‘ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس معاہدے کے بارے میں تنقید کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری ایران کو بہت سہولت دے رہی ہے۔ تاہم مسٹر کیری کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کو مزید محفوظ بنائے گا۔
اسرائیل امریکہ کا اہم اتحادی اور ایران کے روایتی حریف ہے۔
عالمی طاقتیں یہ باور کرتی آئی ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسی لیے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ تہران اس بات پر مصر رہا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پارلیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن ایران کے ساتھ مذاکرات کی سربراہی کرتی آئی ہیں جن کا مقصد اس بات کا تعین کرنا تھا کہ ایران کو کس حد تک یورینیم افژودہ کرنے کی اجازت ہو اور اس پر عائد پابندیاں کس حد تک نرم کی جائیں۔