وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے دولت مشترکہ کے اجلاس کے موقع پر دوسرے ملکوں کے سربراہان کے ہمراہ ہفتہ کو ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاک افغان سرحد پر غیر قانونی آمد و رفت اور سرحد کے قریب شورش زدہ قبائلی علاقوں میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مشکلات کی وجہ سے جسمانی معذوری کا باعث بننے والی اس بیماری پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ بعض انتہا پسند عناصر ان علاقوں میں طبی ٹیموں کو کام کرنے سے روک رہے ہیں جس سے انسداد پولیو کی مہم بھی متاثر ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے بھی ان وجوہات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کی کمزور مہم کی وجہ سے پولیو کے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے پولیو سے متعلق پروگرام کے انچارج ڈاکٹر نیمے عابد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ شورش زدہ علاقوں کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں بچے پولیو کے قطرے نہیں پی پاتے ہیں۔
’’پولیو کے خاتمے کی مہم کا معیار ایسا نہیں ہے کہ ملک سے پولیو کی بیماری ختم ہو جائے۔ ملک کے وہ علاقے جہاں آسان رسائی ممکن ہے وہاں بھی ہر بچہ بیماری سے بچاؤ کے قطرے نہیں پی پا رہا اور یہی وجہ ہے کہ پولیو کے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ ‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں غیر قانونی آمد و رفت ایک بڑا چیلج ضرور ہے لیکن ملک بھر میں انسداد پولیو کی موثر مہم کے لیے حکومت کو قصبوں اور دیہاتوں کی سطح پر بہتر انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت کے نمائندے نے بتایا کہ مہم کے دوران یونین کونسل میں بد انتظامی اور عدم سنجیدگی بھی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ ملک میں رائج رسم و رواج کے باعث بعض علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کے لیے اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کو رکھا گیا ہے جو اتنی اہم ذمہ داری نہیں نبھا سکتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے اُن چار ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کوششوں کے باوجود یہ وائرس ابھی بھی موجود ہے اورسرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 37 اضلاع جسمانی معذوری کا باعث بننے والے پولیو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
حکومت نے ملک میں پولیو کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اس وائرس پر مکمل قابو پانے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام خصوصاً والدین اور رضاکاروں کے تعاون کے بغیر پولیو کا مکمل خاتمہ نامکمل ہے۔
1994ء تک پاکستان میں پولیو کے سالانہ 20 ہزار پولیو کیسز سامنے آتے تھے، لیکن ملک میں اس وائرس کے خلاف سرکاری سطح پر مہم شروع کرنے کے بعد گزشتہ سال یہ تعداد کم ہو کر 144 رہ گئی تھی جبکہ اس سال اب تک پولیو کے 132 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔