پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو لگام ڈالنے میں ناکام رہے تو اسلام آباد افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرے گا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ فروری کے آخر میں انہوں نے اپنے دورۂ افغانستان میں طالبان رہنماؤں کو یاد دلایا تھا کہ وہ سرحد پار سیکیورٹی کے اپنے وعدوں پر عمل کریں۔
وزیرِ دفاع کے مطابق انہوں نے طالبان رہنماؤں کو باور کرایا تھا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں اور اس کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہونے سے نہ روکا گیا تو پھر پاکستان کارروائی کرے گا۔
ان کے بقول "اگر ایسا نہ کیا گیا تو کسی وقت ہمیں کچھ اقدامات کرنا ہوں گے، جو یقینی طور پر ہوں گے۔ افغان سر زمین پر جہاں بھی (دہشت گرد) اور ان کی پناہ گاہیں ہوں گی، ہمیں انہیں نشانہ بنانا پڑے گا۔"
خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو اس لیے نشانہ بنانا پڑے گا کیوں کہ اس صورتِ حال کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق سال 2022 میں ملک میں 262 دہشت گرد حملے ہوئے جس میں سے کم از کم 89 ٹی ٹی پی نے کیے۔
گزشتہ نومبر میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد یکطرفہ طور پر جنگ بندی ختم کردی تھی۔ اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے ملک میں حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں زیادہ تر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان سے کام کر رہی ہے۔ چند سال قبل سرحدی علاقوں میں فوجی آپریشن نے ہزاروں جنگجوؤں کو وہاں فرار ہونے پر مجبور کیا تھا۔
انٹرویو کے دوران جب خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ افغان طالبان کے اس دعوے پر یقین رکھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے کام نہیں کر رہی ہے؟ اس پر خواجہ آصف نے کہا کہ "وہ اب بھی انہی کی سرزمین سے کام کر رہی ہے۔"
وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ حالیہ انتباہ کا طالبان قیادت نے "بہت اچھا جواب دیا۔" ان کے بقول انہیں یقین ہے کہ امریکی قیادت میں اتحادی فوجیوں کے خلاف لڑائی میں حمایت حاصل کرنے کے بعد اب افغان طالبان خود کو ٹی ٹی پی سے 'دور' کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں پاکستان نے مشرقی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ایک ٹھکانے پر حملے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس آپریشن میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت پر افغان طالبان کی جانب سے سخت ردِعمل آیا تھا۔
SEE ALSO: دہشت گردی کی موجودہ لہر ٹی ٹی پی کے ساتھ نرمی کا نتیجہ ہے: قومی سلامتی کمیٹیخواجہ آصف نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو خطرہ اس پوائنٹ تک نہیں بڑھے گا کہ ہمیں کچھ ایسا کرنا پڑے جو کابل میں ہمارے پڑوسیوں اور بھائیوں کو پسند نہیں ہوگا۔ ان کے بقول پاکستان کی افغانستان بھر میں ان کی جانب سے اپنی رٹ قائم کرنے کی کوششوں پر 'نیک خواہشات' ہیں۔
وزیرِدفاع نے انٹرویو میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق فوجی اور انٹیلی جنس قیادت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ہزاروں طالبان جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو پاکستان آنے اور انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت دی۔
البتہ عمران خان نے وی او اے کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں تھے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ کیا ہمیں جنگجوؤں کو قطار میں کھڑا کرکے گولی ماردینی چاہیے تھی یا ہمیں ان کے ساتھ مل کر انہیں دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی؟
پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی حکام الزام لگاتے ہیں پاکستان کے خلاف لڑنے والے ٹی ٹی پی جنگجو افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے اختتام پر امریکی فوجیوں کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیار اور سامان کو استعمال کر رہے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مشیر ڈیرک چولیٹ نے فروری میں وی او اے کو بتایا تھا کہ امریکی حکام کے پاس اس دعوے کا آزادانہ جائزہ نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خواجہ آصف کے بقول، ٹی ٹی پی امریکی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہلکے ہتھیار، اسالٹ رائفلز، گولہ بارود، نائٹ ویژن چشمے اور اسنائپر رائفلز استعمال کر رہی تھی۔
خواجہ آصف سے جب پوچھا گیا کہ آیا پاکستان نے واشنگٹن کے ساتھ کوئی ثبوت شیئر کیا ہے؟ تو انہوں نے اس پر سوال کیا کہ اس سے پاکستان کو کیسے مدد مل سکے گی، واشنگٹن یہ سامان خود غیرملکی سرزمین پر چھوڑ کر گیا ہے؟
انہوں نے افغانستان میں امریکی اور اتحادیوں کی دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد طالبان کے واپس اقتدار میں آنے کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن کی دہشت گردی کے خلاف کامیابی سے لڑنے کی صلاحیت یا پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کی درخواست کرنے کی ضرورت پر بھی سوال اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ "مجھے اس میں کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ہم اس معاملے کو خود سے حل کرسکتے ہیں۔"
پاکستان نے سال 2014 اور 2017 میں دہشت گردوں کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن کیے تھےاور اب ایک مرتبہ پھر پاکستان ایک جامع منصوبہ بندی پر غور کر رہا ہے جس میں افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں ممکنہ فوجی آپریشن بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا پولیس پرحملوں میں اضافہ؛ کیا پولیس کو معیاری بلٹ پروف جیکٹ بھی میسرنہیں؟لیکن پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں اضافے، کم ہوتے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ مذاکرات میں تعطل کے باعث ملک کے دیوالیہ ہونے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
مذکورہ چیلنجز پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ معاشی بحران ہے اور فوج جو سالانہ وفاقی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ حاصل کرتی ہے، وہ اپنے اخراجات کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کٹوتی کہاں کی جائیں گی۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اگر پاکستان نیا فوجی آپریشن شروع کرتا ہے تو اس کے اخراجات کہاں سے آئیں گے۔
'آئندہ انتخابات بغیر کسی مداخلت کے ہوں گے'
سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ فوج سیاست سے دور رہنے کا اپنا حالیہ عزم برقرار رکھے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی فوج کی سیاست میں مداخلت کی ایک تاریخ رہی ہے اور اس کا اعتراف سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ عوامی سطح پر کرچکے ہیں۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان الزام لگاتے ہیں کہ ایک سال قبل فوج نے انہیں ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ البتہ عمران خان کے مخالفین کا الزام ہے کہ تحریکِ انصاف نے فوج کی حمایت سے ہی اقتدار حاصل کیا تھا۔
خواجہ آصف کہتے ہیں کہ" انہیں سو فی صد یقین ہے کہ اگلے انتخابات بغیر کسی مداخلت کے ہوں گے۔"
سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی جیسے بحرانوں کے باجود خواجہ آصف کہتے ہیں کہ 'اس میں کوئی شک نہیں' کہ پاکستان کا دفاع مستحکم ہے۔