پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے پاکستان کسی بھی حالت میں اپنی جوہری ٹیکنالوجی کسی دوسرے ملک کو منتقل نہیں کرے گا۔
یہ بات انہوں نے رواں ماہ ہونے والے پاک امریکہ اسٹریٹجک مذاکرات کے دوران سامنے آنے والی خبروں پر منگل کی شام سینیٹ کے اجلاس میں بحث کے دوران کہی۔
ذرائع ابلاغ میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری حوالے سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان سے جوہری ہتھیار خرید سکتا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ میڈیا میں جان کیری کی بات کو غلط پیرائے میں پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت صرف ملک کے اپنے دفاع کے لیے ہے اور وہ کسی بھی حالت میں اسے کسی دوسرے ملک کو منتقل نہیں کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔
پاکستان نے اسٹریٹجک ہتھیاروں کے علاوہ میدان جنگ میں استعمال کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیار بھی تیار کیے ہیں جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان انہیں کسی دوسرے ملک کو منقتل کر سکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماضی میں پاکستان سے دیگر ملکوں کو جوہری ٹیکنالوجی منتقل ہوئی اس لیے پاکستان کو وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔
مذاکرات کے دوران جان کیری نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی لائے اور تخفیف کو اپنی پالیسی کا اہم حصہ بنائے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور بعد ازاں انہوں نے بھی رواں ماہ اپنے دورہ امریکہ کے دوران خود واشنگٹن پر یہ واضح کیا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام پر کوئی قدغن قبول نہیں کرے گا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکہ کو بتایا گیا کہ ڈیٹرنس یعنی جوہری صلاحیت کے ذریعے دشمن کو حملہ کرنے سے روکنے کا تصور بدل رہا ہے اور پاکستان کو اپنے حریف یعنی بھارت کی جوہری صلاحیت اور اس کے پروگرام میں ہونے والی ترقی کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
تاہم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ دفاع کا تعلق جوہری صلاحیت سے ہے نا کہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد سے۔
انہوں نے کہا کہ ایک جوہری بم بھی آنے والی کئی نسلوں کو تباہ کر سکتا ہے لہٰذا پاکستان کو ہتھیاروں کے تعداد کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔
’’پاکستان کی اپنی سرحد کے اندر اگر کوئی نیوکلیئر ہتھیار چلے تو اس کا اثر دوسری طرف پڑے گا اور اگر دوسری طرف چلے گا تو پاکستان بھی اس کی زد میں آئے گا۔ ہم اتنے قریب ہیں ایک دوسرے کے۔۔۔۔ تعداد کی جو دوڑ ہے اس پر سوچنے سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان اس سے قبل بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ جب تک بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں میں تخفیف پر آمادہ نہیں ہو گا پاکستان ایسی کسی تجویز پر غور نہیں کرے گا۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ملک کی جوہری پالیسی پر بحث کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس بارے میں فیصلہ سازی میں بہتری لائی جا سکے۔