رپورٹ کے مطابق دس میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے جس کی عمومی وجہ دست و اسہال اور نمونیا جیسی وہ بیماریاں ہیں جن سے حفاظتی ویکسین کے استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے فنڈ برائے اطفال یعنی یونیسف کے اشتراک سے حکومت پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے بدھ کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور بچوں کی صورت حال میں قدرے بہتری آئی ہے۔
لیکن ملک میں بچوں کو غذائی قلت، تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک محدود رسائی کے باعث بہت سے دیگر مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کی مجموعی صورتحال شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق دس میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے جس کی عمومی وجہ دست و اسہال اور نمونیا جیسی وہ بیماریاں ہیں جن سے حفاظتی ویکسین کے استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے خصوصاً دیہی علاقوں میں تقریباً 30 فیصد بچے شدید غذائی قلت، نکاسی آب اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔
بچوں کی تعلیمی صورتحال کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی تعلیم کی عمر میں اسکول جانے والے تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ میں سے نصف ہی پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں جب کہ 14 سال تک کی عمر کے تقریباً 36 لاکھ بچے استحصالی اور ضرر رساں ماحول میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
اگرچہ صورتحال میں بہتری کے اشارے ملے ہیں لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد بنیادی تعلیم کے حصول سے محروم ہے۔
لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں خواتین کی کل آبادی کا صرف ایک تہائی ہی خواندہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ روبینہ قائم خانی نے اس رپورٹ کے بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نمایاں قانون سازی کی ہے لیکن اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اب بھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بچوں اور خواتین کی صحت اور انھیں درپیش مسائل کے تدارک کے لیے بعض شعبوں میں بہتری کی نشاندہی بھی کی گئی ہے مگر ساتھ ہی مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوسکنے کی وجوہات پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے باعث بہتری کی رفتار سست روی کا شکار ہوئی۔
لیکن ملک میں بچوں کو غذائی قلت، تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک محدود رسائی کے باعث بہت سے دیگر مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کی مجموعی صورتحال شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق دس میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے جس کی عمومی وجہ دست و اسہال اور نمونیا جیسی وہ بیماریاں ہیں جن سے حفاظتی ویکسین کے استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے خصوصاً دیہی علاقوں میں تقریباً 30 فیصد بچے شدید غذائی قلت، نکاسی آب اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔
بچوں کی تعلیمی صورتحال کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی تعلیم کی عمر میں اسکول جانے والے تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ میں سے نصف ہی پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں جب کہ 14 سال تک کی عمر کے تقریباً 36 لاکھ بچے استحصالی اور ضرر رساں ماحول میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
اگرچہ صورتحال میں بہتری کے اشارے ملے ہیں لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد بنیادی تعلیم کے حصول سے محروم ہے۔
لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں خواتین کی کل آبادی کا صرف ایک تہائی ہی خواندہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ روبینہ قائم خانی نے اس رپورٹ کے بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نمایاں قانون سازی کی ہے لیکن اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اب بھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بچوں اور خواتین کی صحت اور انھیں درپیش مسائل کے تدارک کے لیے بعض شعبوں میں بہتری کی نشاندہی بھی کی گئی ہے مگر ساتھ ہی مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوسکنے کی وجوہات پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے باعث بہتری کی رفتار سست روی کا شکار ہوئی۔