پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خاتون کارکن سیدہ غلام فاطمہ ’ارورا پرائز‘ کے لیے نامزد چار حتمی اُمیدوار میں سے ایک ہیں۔
ان چار اُمیدواروں میں سے اب اعزاز کے لیے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔
سیدہ غلام فاطمہ بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان نامی تنظیم کی سربراہ ہیں، اُن کی تنظیم بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کئی سال سے سرگرم ہے۔
دیگر تین شخصیات میں برونڈی، سوڈان اور وسطی جمہوری افریقہ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن شامل ہیں۔
آرمینیا میں نسل کشی سے بچ جانے والوں کی یاد میں ’ارورا پرائز‘ قائم کیا گیا تھا اور یہ اعزاز ہر سال اُن شخصیات کو دیا جاتا ہے جن کی خدمات کے انسانی زندگیوں پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے ہوں۔
یہ اعزاز جیتنے والے کو ایک لاکھ امریکی ڈالر کی گرانٹ دی جاتی ہے، اعزاز دینے کی تقریب 24 اپریل کو آرمینیا میں ہو گی۔
غلام فاطمہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُنھیں دو ماہ پہلے ’ای میل‘ کے ذریعے یہ اطلاع ملی تھی کہ اس اعزاز کے لیے اُن کے کام پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
’’یقیناً چاروں لوگ (جنہیں حتمی نامزدگی میں شامل کیا گیا ہے) وہ بہت ہی زبردست کام کر رہے ہیں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہوا ہے۔۔۔۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ جس کو بھی یہ ایوارڈ ملے گا وہ میرا ہی ایوارڈ ہو گا۔‘‘
واضح رہے کہ اس سے قبل غلام فاطمہ کو گزشتہ سال نیویارک میں گلوبل سٹییزن شپ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا یہ ایوارڈ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی تنظیم کلنٹن فاؤنڈیشن کی جانب سے ان افراد کو دیا جاتا ہے جو اپنی فکر اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے درپیش مسائل کا حل ڈھونڈ کر معاشرے میں پائیدار و مثبت تبدیلی لانے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
غلام فاطمہ نے کہا کہ اعزاز کی حالیہ نامزدگی اُن کی سال ہا سال کی کوششوں کا اعتراف ہے۔
’’پاکستان کے اندر میں نے 80 ہزار سے زائد بھٹہ مزدورں کو غلامی سے نجات دلا کر اُن کو آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔‘‘
وہ خود بھی ماضی میں اینٹیں بنانے کا کام کرتی تھیں اور ان کو اپنے کام کے دوران کئی مرتبہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر انہوں نے اپنے جیسے دیگر مزدوروں کی زندگی میں بہتری کے لیے تنظیم قائم کی۔
سیدہ غلام فاطمہ کو اس وقت عالمی شہرت ملی جب فوٹو بلاگ ’ہیومنز آف نیویارک‘ کے خالق برینڈن اسٹینٹن نے گزشتہ سال ان کی زندگی، کام اور بھٹہ مزدوروں کے حالات کے بارے میں تصاویر اپنے بلاگ پر شائع کیں، جس کے بعد دنیا بھر سے لوگوں نے ان کے کام سے متاثر ہو کر ان کی تنظیم کے لیے عطیات بھیجے۔
پاکستان میں جبری مشقت پر مجبور افراد کے بارے میں سرکاری طور پر تو اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن غلام فاطمہ کی غیر سرکاری تنظیم ’بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان‘ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں 45 لاکھ مزدور بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں جن میں بچے اور خواتیں بھی شامل ہیں۔