سینکڑوں برس قبل دو قبائلی خاندانی میں سوارہ کی وجہ سے طویل دشمنی تو ختم ہوگئی لیکن بعد ازاں اس روایت کا غلط استعمال کیا جانے لگا اور کم عمر بچیوں کو قبائلی جھگڑے نمٹانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
پشاور —
پاکستان کے اکثر علاقوں میں سینکڑوں سال پرانی قبائلی رسم ’’ونی‘‘ کا رواج اس جدید دور میں بھی عام ہے۔ قانون سازی کے علاوہ آئے روز انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے طرف سے مسلسل توجہ دلائے جانے کے باوجود حالات میں کوئی قابل ذکر بہتری دیکھنے میں نہیں آرہی۔
ونی کو پشتو میں سوارہ کہا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق تقریباً چار سو سال پہلے دو پشتون قبائل کے درمیان خون ریز دشمنی کو ختم کرنے کے لیے جرگے کے سربراہ نے ایک خاندان کی لڑکی کو دوسرے فریق میں بیاہنے کا حکم دیا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ رشتے داری کی وجہ سے یہ خاندان ایک دوسرے کا لحاظ کریں گے اور ان کے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔
سینکڑوں برس قبل دو قبائلی خاندانی میں سوارہ کی وجہ سے طویل دشمنی تو ختم ہوگئی لیکن بعد ازاں اس روایت کا غلط استعمال کیا جانے لگا اور کم عمر بچیوں کو قبائلی جھگڑے نمٹانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ دنوں میں سوات کے علاقے میں تقریباً سات لڑکیوں کو اس روایت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔
خواتین اور لڑکیوں کو اس طرح کے معاہدوں اور سمجھوتوں کے لیے استعمال کیا جانا نہ تو مذہبی اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی مہذب معاشروں میں یہ رسم برقرار رکھی جاسکتی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم خویندو جرگہ کی رکن تبسم عدنان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مردوں کو ان کے قصور کی سزا خود بھگتنی چاہیے نہ کہ اس کے لیے عورت کو استعمال کیا جائے۔
ایک قبائلی جرگے کے سربراہ ملک خان مرجان کا کہنا تھا کہ نیک نیتی سے شروع کی جانے والی ونی کی رسم بہت اچھی تھی جس سے ایک مقدس رشتے میں بندھ کر دو خاندان ایک دوسرے کے قریب آتے تھے اور ان میں اعتماد بڑھتا تھا۔
لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے معاشرے اور نئی نسل نے اسے ایک غلط رنگ دیا۔
پشاور کی ایک مقامی مذہبی شخصیت مولانا عزیز کا کہنا تھا کہ یہ رسم اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔’’اگر بھائی جرم کرے اور اس کا الزالہ اس کی بہن کرے تو یہ قرآن و احادیث کے منافی ہے۔‘‘
ونی کو پشتو میں سوارہ کہا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق تقریباً چار سو سال پہلے دو پشتون قبائل کے درمیان خون ریز دشمنی کو ختم کرنے کے لیے جرگے کے سربراہ نے ایک خاندان کی لڑکی کو دوسرے فریق میں بیاہنے کا حکم دیا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ رشتے داری کی وجہ سے یہ خاندان ایک دوسرے کا لحاظ کریں گے اور ان کے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔
سینکڑوں برس قبل دو قبائلی خاندانی میں سوارہ کی وجہ سے طویل دشمنی تو ختم ہوگئی لیکن بعد ازاں اس روایت کا غلط استعمال کیا جانے لگا اور کم عمر بچیوں کو قبائلی جھگڑے نمٹانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ دنوں میں سوات کے علاقے میں تقریباً سات لڑکیوں کو اس روایت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔
خواتین اور لڑکیوں کو اس طرح کے معاہدوں اور سمجھوتوں کے لیے استعمال کیا جانا نہ تو مذہبی اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی مہذب معاشروں میں یہ رسم برقرار رکھی جاسکتی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم خویندو جرگہ کی رکن تبسم عدنان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مردوں کو ان کے قصور کی سزا خود بھگتنی چاہیے نہ کہ اس کے لیے عورت کو استعمال کیا جائے۔
ایک قبائلی جرگے کے سربراہ ملک خان مرجان کا کہنا تھا کہ نیک نیتی سے شروع کی جانے والی ونی کی رسم بہت اچھی تھی جس سے ایک مقدس رشتے میں بندھ کر دو خاندان ایک دوسرے کے قریب آتے تھے اور ان میں اعتماد بڑھتا تھا۔
لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے معاشرے اور نئی نسل نے اسے ایک غلط رنگ دیا۔
پشاور کی ایک مقامی مذہبی شخصیت مولانا عزیز کا کہنا تھا کہ یہ رسم اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔’’اگر بھائی جرم کرے اور اس کا الزالہ اس کی بہن کرے تو یہ قرآن و احادیث کے منافی ہے۔‘‘