طبی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال ملک میں چالیس ہزار عورتیں اس مرض سے متاثر ہو رہی ہیں۔
اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح منگل کو پاکستان میں بھی سرطان سے بچاؤ کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد مرض اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال ملک میں چالیس ہزار عورتیں اس مرض سے متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔
اس دن کی مناسبت سے اسلام آباد میں سرطان کے امراض کے ایک سرکاری اسپتال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا کہ جلد تشخیص اور احتیاطی تدابیر سے سرطان کے مرض کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
تقریب میں شریک ڈاکٹر حمیرا محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماحولیاتی آلودگی اور تمباکو نوشی بھی ملک میں کینسر کے مرض میں اضافے کا ایک اہم سبب ہیں۔
’’ پہلے گلے اور پھیپھڑوں کا سرطان صرف مردوں میں ہوتا تھا لیکن اب شیشہ پینے کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں میں بھی کینسر کا خطرہ زیادہ ہوگیا ہے۔ پان اور چھالیہ کے استعمال کی وجہ سے بھی پاکستان میں لوگوں میں منہ کا کینسر بڑھ رہا ہے۔‘‘
خواتین میں چھاتی کے سرطان کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون اس مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے اور غذائی عادات بھی اس مرض کے لاحق ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
’’اسکریننگ ایک ایسا عمل ہے جس سے ہم ان لوگوں کا ٹیسٹ کرتے ہیں جن میں (بظاہر) سرطان کی علامتیں نہیں ہوتیں لیکن انھیں کینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ان میں وہ خواتین بھی شامل ہو سکتی ہیں جن کے خاندان میں کسی کو چھاتی کا سرطان ہو اور اگر وہ چالیس سال کی عمر میں ایک ٹیسٹ جسے میموگرام کہتے ہیں، ان کو کروا لینا چاہیئے۔ مردوں میں پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کے لیے خون کا ایک ٹیسٹ کروا لینے سے اس کی بروقت تشخیص ہو جاتی ہے جس سے علاج ممکن ہو جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر حمیرا محمود کا کہنا تھا کہ خطرے کی بات یہ ہے کہ اب نوجوان خواتین بھی چھاتی کے مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں سرطان کے علاج کے مخصوص اسپتالوں کی تعداد بہت کم یے لیکن اس مرض کی بر وقت تشخیص سے زندگیوں کو بچایا جا سکتا یے۔
طبی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال ملک میں چالیس ہزار عورتیں اس مرض سے متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔
اس دن کی مناسبت سے اسلام آباد میں سرطان کے امراض کے ایک سرکاری اسپتال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا کہ جلد تشخیص اور احتیاطی تدابیر سے سرطان کے مرض کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
تقریب میں شریک ڈاکٹر حمیرا محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماحولیاتی آلودگی اور تمباکو نوشی بھی ملک میں کینسر کے مرض میں اضافے کا ایک اہم سبب ہیں۔
’’ پہلے گلے اور پھیپھڑوں کا سرطان صرف مردوں میں ہوتا تھا لیکن اب شیشہ پینے کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں میں بھی کینسر کا خطرہ زیادہ ہوگیا ہے۔ پان اور چھالیہ کے استعمال کی وجہ سے بھی پاکستان میں لوگوں میں منہ کا کینسر بڑھ رہا ہے۔‘‘
خواتین میں چھاتی کے سرطان کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون اس مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے اور غذائی عادات بھی اس مرض کے لاحق ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
’’اسکریننگ ایک ایسا عمل ہے جس سے ہم ان لوگوں کا ٹیسٹ کرتے ہیں جن میں (بظاہر) سرطان کی علامتیں نہیں ہوتیں لیکن انھیں کینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ان میں وہ خواتین بھی شامل ہو سکتی ہیں جن کے خاندان میں کسی کو چھاتی کا سرطان ہو اور اگر وہ چالیس سال کی عمر میں ایک ٹیسٹ جسے میموگرام کہتے ہیں، ان کو کروا لینا چاہیئے۔ مردوں میں پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کے لیے خون کا ایک ٹیسٹ کروا لینے سے اس کی بروقت تشخیص ہو جاتی ہے جس سے علاج ممکن ہو جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر حمیرا محمود کا کہنا تھا کہ خطرے کی بات یہ ہے کہ اب نوجوان خواتین بھی چھاتی کے مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں سرطان کے علاج کے مخصوص اسپتالوں کی تعداد بہت کم یے لیکن اس مرض کی بر وقت تشخیص سے زندگیوں کو بچایا جا سکتا یے۔