عالمی یوم امن کے موقع پر مبصرین کا کہنا تھا کہ انسانوں کے درمیان یگانگت امن سے بڑھتی ہے، تصادم سے بچا جائے کیونکہ جنگیں اور تصادم انسانوں کو تقویت نہیں دے سکتے۔
اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں ہفتہ کو عالمی یوم امن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد امن کا فروغ اور لوگوں میں اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
یہ دن ایک ایسے وقت منایا جا رہا ہے جب ایک طرف دنیا کے بیشتر خطے مختلف انواع کی بدامنی اور تنازعات کا شکار ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی و انتہا پسندی عالمی امن کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
ایسے میں عالمی یوم امن کی اہمیت مبصرین کے بقول اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ پیس اینڈ کونفلکٹ اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے کہ کشیدگی، تصادم، جھگڑے اور جنگ مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی اس سے انسان کی سلامتی و بقا کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
’’انسانوں کے درمیان یگانگت امن سے بڑھتی ہے، تصادم سے بچا جائے کیونکہ جنگیں اور تصادم آپ کو تقویت نہیں دے سکتے۔‘‘
گوکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اس وقت تصادم اور شورش پسندی کے سے حالات ہیں لیکن ڈاکٹر ہلالی کے بقول جتنی جلدی اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے تو بہتر ہے۔
’’سرد جنگوں کے دور کے بعد آج کی دنیا عالمی سطح پر سیاسیات کی بجائے اقتصادیات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ملکوں کے درمیان اقتصادی مسابقت جاری ہے، اقتصادی میدان میں ترقی کر رہی ہیں، ثقافتی میدان میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، تو سماجی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں ترقی کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تصادم سے گریز کریں۔‘‘
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہے جب کہ حالیہ برسوں میں مذہب اور مسلک کی منافرت پر مبنی واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے باعث پاکستان میں گزشتہ دس سالوں میں چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
یہ دن ایک ایسے وقت منایا جا رہا ہے جب ایک طرف دنیا کے بیشتر خطے مختلف انواع کی بدامنی اور تنازعات کا شکار ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی و انتہا پسندی عالمی امن کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
ایسے میں عالمی یوم امن کی اہمیت مبصرین کے بقول اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ پیس اینڈ کونفلکٹ اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے کہ کشیدگی، تصادم، جھگڑے اور جنگ مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی اس سے انسان کی سلامتی و بقا کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
’’انسانوں کے درمیان یگانگت امن سے بڑھتی ہے، تصادم سے بچا جائے کیونکہ جنگیں اور تصادم آپ کو تقویت نہیں دے سکتے۔‘‘
گوکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اس وقت تصادم اور شورش پسندی کے سے حالات ہیں لیکن ڈاکٹر ہلالی کے بقول جتنی جلدی اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے تو بہتر ہے۔
’’سرد جنگوں کے دور کے بعد آج کی دنیا عالمی سطح پر سیاسیات کی بجائے اقتصادیات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ملکوں کے درمیان اقتصادی مسابقت جاری ہے، اقتصادی میدان میں ترقی کر رہی ہیں، ثقافتی میدان میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، تو سماجی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں ترقی کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تصادم سے گریز کریں۔‘‘
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہے جب کہ حالیہ برسوں میں مذہب اور مسلک کی منافرت پر مبنی واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے باعث پاکستان میں گزشتہ دس سالوں میں چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔