1993ء میں جب پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کی مہم سرکاری سطح پر شروع کی گئی تو ملک میں اس وائرس سے متاثرہ 25000 کیسز رجسٹر تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے گئے اور رواں برس اب تک پولیو کے 49 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد —
ظہیر ولی کو خود تو یاد نہیں کہ تب اس کا دماغ یادوں کو قید کرنے کی عمر میں نہیں تھا لیکن اسے اس کی والدہ نے بتایا کہ کم سنی میں اسے بخار ہوا اور پھر اگلے روز اس کے جسم کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔
وہیل چیئر پر بیٹھے 38 سالہ ظہیر ولی ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ جب وہ اس مرض کا شکار ہوئے تو اس وقت نہ تو لوگوں کو پولیو کے بارے میں علم تھا اور نہ ہی اس کے بچاؤ کے قطروں کا تذکرہ کہیں سنا تھا۔ ان کے بقول ان کے والدین انھیں بہت سے ڈاکٹروں کے علاوہ دم کرنے والے پیروں، فقیروں کے پاس بھی لے کر گئے لیکن کوئی افاقہ نہ ہوسکا۔
1993ء میں جب پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کی مہم سرکاری سطح پر شروع کی گئی تو ملک میں اس وائرس سے متاثرہ 25000 کیسز رجسٹر تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے گئے اور رواں برس اب تک پولیو کے 49 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کی نسبت پولیو کے کیسز میں 70 فیصد کمی تو دیکھنے میں آئی لیکن خصوصاً ملک کے قبائلی علاقوں میں سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو مہم میں تعطل سے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
قومی ہیلتھ سروسز کی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ کہتی ہیں کہ اب تک سامنے آنے والے 49 میں سے 43 کیسز قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ سے رپورٹ ہوئے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال تک کی عمر کے ہر بچے تک انسداد پولیو ٹیموں کی رسائی کو ممکن بنائے بغیر ملک سے اس وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں۔
’’شمالی وزیرستان میں لاکھوں بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں جب تک ہم مقررہ وقتوں میں بچوں کو یہ قطرے نہیں پلائیں گے یہ موذی وائرس ہمارے بچوں پر حملہ کرتا رہے گا۔‘‘
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان اور دیگر کئی ایک علاقوں میں شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو مہم کے خلاف پراپیگنڈے اور گزشتہ سال کے اواخر سے ملک کے مختلف حصوں میں اس مہم سے وابستہ ٹیموں پر ہلاکت خیز حملوں کے باعث پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم متعدد بار تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔
ان حملوں میں خواتین رضا کاروں سمیت لگ بگھ دو درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔
تاہم سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ تمام چیلنجز کے باوجود حکومت پولیو وائرس کے خاتمے کے پرعزم ہے اور تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر جامع پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
دریں اثناء پاکستان علما کونسل نے بھی جمعرات کو انسداد پولیو کے عالمی دن کے موقع پر اپنے بیان کہا کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ تو مضر صحت ہیں اور نہ ہی شریعت کے خلاف۔ بیان میں ان قطروں کے غیر اسلامی ہونے کے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے والدین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلائیں۔
پولیو سے متاثرہ ظہیر ولی دو بچوں کے باپ ہیں۔ وہ خود تو اس مرض میں مبتلا ہوئے لیکن اپنے بچوں کو مقررہ وقت پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلواتے رہے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا ہوکر اپنی روز مرہ زندگی پر پڑنے والے فرق کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
’’جو کام عام انسان کر سکتا ہے وہ تو میں نہیں کرسکتا، اور تو کچھ نہیں بس یہ ہے کہ وہیل چیئر زندگی کا حصہ ہے اور اگر یہ نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
ظہیر ولی نے بھی والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے کسی شک و شبے کے بغیر حفاظتی قطرے ضرور پلوائیں۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں اب تک اس موذی وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا جب کہ ماہرین کے بقول انسداد پولیو مہم کے بلا تعطل جاری رہنے سے اس مرض سے بچاؤ کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
وہیل چیئر پر بیٹھے 38 سالہ ظہیر ولی ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ جب وہ اس مرض کا شکار ہوئے تو اس وقت نہ تو لوگوں کو پولیو کے بارے میں علم تھا اور نہ ہی اس کے بچاؤ کے قطروں کا تذکرہ کہیں سنا تھا۔ ان کے بقول ان کے والدین انھیں بہت سے ڈاکٹروں کے علاوہ دم کرنے والے پیروں، فقیروں کے پاس بھی لے کر گئے لیکن کوئی افاقہ نہ ہوسکا۔
1993ء میں جب پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کی مہم سرکاری سطح پر شروع کی گئی تو ملک میں اس وائرس سے متاثرہ 25000 کیسز رجسٹر تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے گئے اور رواں برس اب تک پولیو کے 49 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کی نسبت پولیو کے کیسز میں 70 فیصد کمی تو دیکھنے میں آئی لیکن خصوصاً ملک کے قبائلی علاقوں میں سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو مہم میں تعطل سے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
قومی ہیلتھ سروسز کی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ کہتی ہیں کہ اب تک سامنے آنے والے 49 میں سے 43 کیسز قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ سے رپورٹ ہوئے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال تک کی عمر کے ہر بچے تک انسداد پولیو ٹیموں کی رسائی کو ممکن بنائے بغیر ملک سے اس وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں۔
’’شمالی وزیرستان میں لاکھوں بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں جب تک ہم مقررہ وقتوں میں بچوں کو یہ قطرے نہیں پلائیں گے یہ موذی وائرس ہمارے بچوں پر حملہ کرتا رہے گا۔‘‘
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان اور دیگر کئی ایک علاقوں میں شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو مہم کے خلاف پراپیگنڈے اور گزشتہ سال کے اواخر سے ملک کے مختلف حصوں میں اس مہم سے وابستہ ٹیموں پر ہلاکت خیز حملوں کے باعث پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم متعدد بار تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔
ان حملوں میں خواتین رضا کاروں سمیت لگ بگھ دو درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔
تاہم سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ تمام چیلنجز کے باوجود حکومت پولیو وائرس کے خاتمے کے پرعزم ہے اور تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر جامع پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
دریں اثناء پاکستان علما کونسل نے بھی جمعرات کو انسداد پولیو کے عالمی دن کے موقع پر اپنے بیان کہا کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ تو مضر صحت ہیں اور نہ ہی شریعت کے خلاف۔ بیان میں ان قطروں کے غیر اسلامی ہونے کے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے والدین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلائیں۔
پولیو سے متاثرہ ظہیر ولی دو بچوں کے باپ ہیں۔ وہ خود تو اس مرض میں مبتلا ہوئے لیکن اپنے بچوں کو مقررہ وقت پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلواتے رہے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا ہوکر اپنی روز مرہ زندگی پر پڑنے والے فرق کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
’’جو کام عام انسان کر سکتا ہے وہ تو میں نہیں کرسکتا، اور تو کچھ نہیں بس یہ ہے کہ وہیل چیئر زندگی کا حصہ ہے اور اگر یہ نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
ظہیر ولی نے بھی والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے کسی شک و شبے کے بغیر حفاظتی قطرے ضرور پلوائیں۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں اب تک اس موذی وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا جب کہ ماہرین کے بقول انسداد پولیو مہم کے بلا تعطل جاری رہنے سے اس مرض سے بچاؤ کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔