پاکستان سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ملک میں سلامتی کی خراب صورتحال کے باعث یہ شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا۔
اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جمعہ کو عالمی یوم سیاحت منایا گیا جس کا مقصد بین الاقوامی برادری کے درمیان سیاحت کے کردار اور اس کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی اثرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔
رواں سال اس دن کا موضوع ’’سیاحت اور پانی، مشترکہ مستقبل کی حفاظت‘‘ رکھا گیا جس میں سیاحتی شعبے میں ان اقدامات کو اجاگر کرنے پر توجہ دی گئی جن کا مقصد آبی وسائل کی طویل المدتی بنیادوں پر دستیابی میں مدد دینا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے پیغام میں سیاحت کو ملکی اقتصادیات کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اس شعبے کو واپس اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی خواہاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاحتی شعبے میں ترقی کے وسیع مواقع ہیں اور اس میں صحیح معنوں میں کام کرکے لوگوں کے لیے روزگار اور آمدن کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں جس سے ان کے بقول دہشت گردانہ عناصر کو شکست دینے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ملک میں سلامتی کی خراب صورتحال کے باعث یہ شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا۔
خصوصاً ملک کے شمال مغربی اور شمالی علاقوں میں قدرتی حسن اور فلک بوس پہاڑوں کی سیر اور مہم جوئی کے لیے ملک بھر کے علاوہ غیر ملکیوں کی اچھی خاصی تعداد یہاں کا رخ کیا کرتی تھی۔
ان علاقوں میں امن و امان کی نامناسب صورتحال کے باعث سیاحوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کیا جہاں گزشتہ سال تقریباً 5 لاکھ لوگ مختلف مقامات کی سیر کے لیے آئے۔
پاکستانی کشمیر میں محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الدین قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عالمی یوم سیاحت کشمیر میں بھی بھرپور انداز میں منایا گیا جس میں مختلف تقاریب اور واک کا اہتمام بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال بھی ان کے اندازوں کے مطابق سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد نے اس علاقے کا رخ کیا۔
’’ بین الاقوامی امداد خصوصاً 2005ء کے زلزلے کے بعد ملنے والی امداد سے ہمارا بنیا دی ڈھانچہ خاصی حد تک بہتر ہوا گوکہ اتنا نہیں ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا لیکن پھر بھی کافی بہتر ہوا، ہم نے جو اندازے لگائے تھے اس حساب سے لوگ یہاں آئے، رواں سال ہمارا اندازہ ہے کہ کشمیر کی سیر کرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد چھ سے سات لاکھ رہے گی۔‘‘
اگرچہ گزشتہ دو سالوں کے دوران وادی سوات میں سیاحوں کی تعداد میں قدرے اضافہ ہوا ہے لیکن سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں سیر و تفریح کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق اندرون ملک ہی سے ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومتیں کہہ چکی ہیں کہ وہ امن و امان کی صورت کو بہتر بنانے کے علاوہ سیاحوں کو راغب کرنے کی پالیسی پر بھی کام کر رہی ہیں۔
رواں سال اس دن کا موضوع ’’سیاحت اور پانی، مشترکہ مستقبل کی حفاظت‘‘ رکھا گیا جس میں سیاحتی شعبے میں ان اقدامات کو اجاگر کرنے پر توجہ دی گئی جن کا مقصد آبی وسائل کی طویل المدتی بنیادوں پر دستیابی میں مدد دینا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے پیغام میں سیاحت کو ملکی اقتصادیات کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اس شعبے کو واپس اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی خواہاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاحتی شعبے میں ترقی کے وسیع مواقع ہیں اور اس میں صحیح معنوں میں کام کرکے لوگوں کے لیے روزگار اور آمدن کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں جس سے ان کے بقول دہشت گردانہ عناصر کو شکست دینے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ملک میں سلامتی کی خراب صورتحال کے باعث یہ شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا۔
خصوصاً ملک کے شمال مغربی اور شمالی علاقوں میں قدرتی حسن اور فلک بوس پہاڑوں کی سیر اور مہم جوئی کے لیے ملک بھر کے علاوہ غیر ملکیوں کی اچھی خاصی تعداد یہاں کا رخ کیا کرتی تھی۔
ان علاقوں میں امن و امان کی نامناسب صورتحال کے باعث سیاحوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کیا جہاں گزشتہ سال تقریباً 5 لاکھ لوگ مختلف مقامات کی سیر کے لیے آئے۔
پاکستانی کشمیر میں محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الدین قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عالمی یوم سیاحت کشمیر میں بھی بھرپور انداز میں منایا گیا جس میں مختلف تقاریب اور واک کا اہتمام بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال بھی ان کے اندازوں کے مطابق سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد نے اس علاقے کا رخ کیا۔
’’ بین الاقوامی امداد خصوصاً 2005ء کے زلزلے کے بعد ملنے والی امداد سے ہمارا بنیا دی ڈھانچہ خاصی حد تک بہتر ہوا گوکہ اتنا نہیں ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا لیکن پھر بھی کافی بہتر ہوا، ہم نے جو اندازے لگائے تھے اس حساب سے لوگ یہاں آئے، رواں سال ہمارا اندازہ ہے کہ کشمیر کی سیر کرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد چھ سے سات لاکھ رہے گی۔‘‘
اگرچہ گزشتہ دو سالوں کے دوران وادی سوات میں سیاحوں کی تعداد میں قدرے اضافہ ہوا ہے لیکن سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں سیر و تفریح کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق اندرون ملک ہی سے ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومتیں کہہ چکی ہیں کہ وہ امن و امان کی صورت کو بہتر بنانے کے علاوہ سیاحوں کو راغب کرنے کی پالیسی پر بھی کام کر رہی ہیں۔