پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو ایک خط لکھا ہے جس میں انھیں متنازع علاقے کشمیر میں حد بندی لائن پر بھارت کی طرف سے فائر بندی کی خلاف ورزی کے واقعات سے آگاہ کیا ہے۔
دفتر خارجہ سے اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق مشیر خارجہ نے بان کی مون کے نام خط میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی مبینہ بلااشتعال فائرنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی انھیں مطلع کیا۔
انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کروانے کی ضرورت ہے اور عالمی تنظیم اور بین الاقوامی برادری اس میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان اور بھارت اس ماہ کے اوائل سے ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف ورزی میں پہل کرنے کا الزام عائد کرتے آرہے ہیں جب کہ فائرنگ کے تبادلے سے اب تک دونوں جانب لگ بھگ دو درجن افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف کی صدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فائربندی کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتا ہے لیکن کسی بھی 'جارحیت' کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ادھر بھارت کے وزیر دفاع بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فورسز 'مہم جوئی' سے باز رہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کشیدگی دونوں ملکوں اور خطے کے امن کے لیے مضر ہے اور اس کے فوری خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو تناؤ میں مزید اضافہ صورتحال کو تشویشناک کر سکتا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا " ہم نے اپنے طور پہ بہت کوشش کر کے دیکھ لیا ہے کہ ہندوستان اگر دوستی نہیں تو کم ازکم دشمنی کا رویہ تو ترک کر دے۔ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ آخر میں پاکستا ن نے مجبور ہو کر یہ خط لکھا ہے کہ سلامتی کونسل بھی اقوام متحدہ بھی اس بات کا نوٹس لے جو کچھ سرحدوں پر ہو رہا ہے کیونکہ اگر اس وقت ہم اقوام متحدہ اور دوسری تنظیموں کے دروازے نہیں کھٹکھٹاتے تو یہ چھوٹی جنگ بڑی جنگ بھی ہو سکتی ہے اور حالات اس سے کشیدہ بھی ہو سکتے ہیں"۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر اس سے قبل بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے لیکن رواں ماہ ہونے والے واقعات کو 2003ء میں فائربندی کے معاہدے کے بعد اس کی سب سے سنگین خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔
حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں میں سرحد کے قریب واقع متعدد دیہاتوں سے لوگ بھی محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے ہیں۔