پاکستان نے کہا ہے کہ وہ امن پسند ملک ہے لیکن امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
رواں ماہ پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک دوسرے پر سرحد پر فائربندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات اور شہری ہلاکتوں کے باعث تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال پر غور کے لیے جمعہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان امن اور مذاکرات کو ہی ملکوں کے درمیان تعلقات کا راستہ سمجھتا ہے اور وہ اس کے لیے کوشاں بھی رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کئی کوششیں کیں لیکن دوسری جانب سے اس کا حوصلہ افزا ردعمل سامنے نہیں آیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستانی فورسز کسی بھی طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کو مرعوب کر سکتا ہے۔
"پاکستان امن پر یقین رکنے والا ملک ہے اور یہی ہماری خارجہ پالیسی کا ستون ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی قسم کا غیر ملکی تسلط قبول کریں گے۔۔۔اس فورم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی قسم کی دراندازی ہوتی ہے کسی قسم کی مہم جوئی ہوتی ہے تو اسے پوری طاقت سے اس کا جواب دیا جائے گا کوئی اس ابہام میں نہ رہے کہ زور بازو سے پاکستان کو دبایا جا سکتا ہے۔"
پاکستانی حکام کے مطابق رواں ماہ کے اوائل سے اب تک سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری اور کمشیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز کی فائرنگ و گولہ باری سے 13 شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارت پاکستان پر فائرنگ میں پہل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی جانب آٹھ افراد مارے گئے۔
جمعہ کو بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان اکبر الدین کا کہنا تھا کہ صورتحال کو مزید بڑھنے سے روکنا پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔
حالیہ دنوں میں دونوں جانب کی سیاسی قیادت اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بھی تندو تیز بیانات سامنے آچکے ہیں۔
پاکستانی وزیرداخلہ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو ایک خط لکھا جائے گا جس میں فائربندی کی حالیہ خلاف ورزیوں، سرحد پر کشیدگی اور دونوں کے درمیان تلخی کے علاوہ حل طلب معاملات سے متعلق انھیں آگاہ کیا جائے گا اور اس میں اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنے کی بابت یاد دہانی کروائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب بھی بات چیت کے ذریعے ہی تمام معاملات کو طے کرنے کا خواہاں ہے۔
"ہم اب بھی امن کے راستے پر چل کر تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں، یہی پاکستان کے لیے بہتر ہے، یہی ہندوستان کے لیے بہتر ہے اور یہی پورے خطے کے لیے بہتر ہے۔"
لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتحال کی وجہ سے حدبندی لائن کے دونوں جانب متعدد دیہاتوں سے لوگ نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان اس سے قبل بھی سرحدوں پر ایسی صورتحال رونما ہوتی رہی ہے لیکن اس ماہ 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی کے معاہدے کی ہونے والی یہ سب سے زیادہ سنگین خلاف ورزی قرار دی جارہی ہے۔