پارلیمانی کمیٹی کے رکن عثمان سیف اللہ خان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گوگل کے عہدیداروں اس تشویش کا بڑے واضح انداز میں اظہار کیا کہ پاکستان میں سائبر کرائم یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں۔
اسلام آباد —
دنیا کی معروف کمپنی گوگل نے پاکستانی قانون سازوں کو کہا ہے کہ ’’سائبر کرائم‘‘ سے متعلق قانون سازی کے بعد ہی پاکستان میں مقامی سطح پر یوٹیوب کی ڈومین یا رسائی کے لیے الگ انٹرنیٹ لنک بنانے کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات کمپنی کے عہدیداروں نے پارلمان کی یو ٹیوب کے مسئلے پر ایک ذیلی کمیٹی کے اراکین سے ایک ملاقات میں کہی۔
کمیٹی کے رکن عثمان سیف اللہ خان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس تشویش کا بڑے واضح انداز میں اظہار کیا کہ پاکستان میں سائبر کرائم یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں۔
’’لوکلائز کا مطلب وہ ایک پاکستان کے لیے لنک بنائے گے جس پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز کو کسی حد تک ہمارے لوگ ریگولرائز کر سکیں گے۔ تو اب بنیادی مسئلہ تو یہ قانون ہے۔ اب یہ ہو گا تو آگے کچھ بات چل سکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کے بارے ایک قانونی مسودہ حکومتی اراکین کے بقول عنقریب کا پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
وڈیو شیئرنگ کی معروف ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ کی پاکستان میں بندش کو 16 ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اور اس تک رسائی کو بحال کرنے سے متعلق سرکاری عہدیدار با رہا پارلیمان کو یقین دہائی کرواتے آئے ہیں۔
ستمبر 2012ء اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے پیغمبرِ اسلام سے متعلق ایک توہین آمیز فلم کے کچھ حصوں کے یو ٹیوب پر نشر ہونے کے بعد اس ویب سائٹ تک رسائی پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔
عثمان سیف اللہ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کو بھی اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے گلوگل پر زور دینا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ’’کمٹمنٹ‘‘ کا اظہار کریں۔
’’وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں بزنس لوکلائز کرنے کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے اور اس پر سوچیں گے۔ میرے خیال میں پاکستان سعودی عرب کے مقابلہ میں زیادہ جمہوری ملک ہے تو اگر وہاں ہو سکتا ہے تو یہاں کیوں نہی؟۔ کیا صرف یہ وجہ ہے کہ وہ امیر ملک ہے اور ہم غریب؟‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوٹیوب کے لوکلائز ہونے سے حکومت کو محصولات کے حصول کے ساتھ ساتھ ملک میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے رکن سید علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ یوٹیوب پر پابندی ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔
’’ُاگر یہ ٹیکنکل معاملہ ہوتا تو دوسری پورٹل بھی بند ہو جاتی جہاں یہ (متنازع فلم کے ) حصے پائے جاتے ہیں۔ حکومت کو ڈر ہے کہ اگر کھول دیا تو انتہا پسند یا قدامت پسند طاقتیں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور سلامتی کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘
نواز شریف حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کے مذہبی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے یوٹیوب پر پابندی کو برقرار رکھا گیا ہے جبکہ اس قدقن کا خاتمے ان کے بقول مناسب انتظامات کے بعد کیا جائے گا۔
ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد اور کئی ماہرین اس پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو یوٹیوب کی مکمل بندش کی بجائے اس ویب سائٹ پر موجود صرف توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنا چاہئیے تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ مواد تک صارفین کی رسائی محدود کرنے کے کسی فیصلے پر اکتفا کرنا، حکومت کو اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کی اجازت دینے کے مترادف ہو گا۔
یہ بات کمپنی کے عہدیداروں نے پارلمان کی یو ٹیوب کے مسئلے پر ایک ذیلی کمیٹی کے اراکین سے ایک ملاقات میں کہی۔
کمیٹی کے رکن عثمان سیف اللہ خان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس تشویش کا بڑے واضح انداز میں اظہار کیا کہ پاکستان میں سائبر کرائم یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں۔
’’لوکلائز کا مطلب وہ ایک پاکستان کے لیے لنک بنائے گے جس پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز کو کسی حد تک ہمارے لوگ ریگولرائز کر سکیں گے۔ تو اب بنیادی مسئلہ تو یہ قانون ہے۔ اب یہ ہو گا تو آگے کچھ بات چل سکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کے بارے ایک قانونی مسودہ حکومتی اراکین کے بقول عنقریب کا پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
وڈیو شیئرنگ کی معروف ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ کی پاکستان میں بندش کو 16 ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اور اس تک رسائی کو بحال کرنے سے متعلق سرکاری عہدیدار با رہا پارلیمان کو یقین دہائی کرواتے آئے ہیں۔
ستمبر 2012ء اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے پیغمبرِ اسلام سے متعلق ایک توہین آمیز فلم کے کچھ حصوں کے یو ٹیوب پر نشر ہونے کے بعد اس ویب سائٹ تک رسائی پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔
عثمان سیف اللہ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کو بھی اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے گلوگل پر زور دینا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ’’کمٹمنٹ‘‘ کا اظہار کریں۔
’’وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں بزنس لوکلائز کرنے کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے اور اس پر سوچیں گے۔ میرے خیال میں پاکستان سعودی عرب کے مقابلہ میں زیادہ جمہوری ملک ہے تو اگر وہاں ہو سکتا ہے تو یہاں کیوں نہی؟۔ کیا صرف یہ وجہ ہے کہ وہ امیر ملک ہے اور ہم غریب؟‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوٹیوب کے لوکلائز ہونے سے حکومت کو محصولات کے حصول کے ساتھ ساتھ ملک میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے رکن سید علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ یوٹیوب پر پابندی ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔
’’ُاگر یہ ٹیکنکل معاملہ ہوتا تو دوسری پورٹل بھی بند ہو جاتی جہاں یہ (متنازع فلم کے ) حصے پائے جاتے ہیں۔ حکومت کو ڈر ہے کہ اگر کھول دیا تو انتہا پسند یا قدامت پسند طاقتیں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور سلامتی کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘
نواز شریف حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کے مذہبی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے یوٹیوب پر پابندی کو برقرار رکھا گیا ہے جبکہ اس قدقن کا خاتمے ان کے بقول مناسب انتظامات کے بعد کیا جائے گا۔
ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد اور کئی ماہرین اس پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو یوٹیوب کی مکمل بندش کی بجائے اس ویب سائٹ پر موجود صرف توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنا چاہئیے تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ مواد تک صارفین کی رسائی محدود کرنے کے کسی فیصلے پر اکتفا کرنا، حکومت کو اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کی اجازت دینے کے مترادف ہو گا۔