سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ صدر کا یہ فعل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی حال ہی میں ’’سیاسی‘‘ اجتماع میں شرکت کے بعد ملک میں ایک اور قانونی و سیاسی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا یہ عمل عدالت عظمٰی کے اس فیصلے کی نفی کرتا ہے جس میں صدر کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنے کو کہا گیا ہے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام کو بنیاد بنا کر کیا صدر زرداری کے خلاف کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کا آغاز حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک بار پھر تناؤ کا باعث تو نہیں بنے گا۔
صدر زرداری نے بدھ کو وسطی پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں اپنے حامیوں کے ایک جلسے میں شرکت کی جسے چند مبصرین کے بقول بظاہر تنقید سے بچنے کے لیے عید ملن پارٹی کا نام دیا گیا۔
90 کی دہائی میں اس وقت کے صدر، فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان کی جانب سے سیاستدانوں کو رقوم تقسیم کرنے کے مقدمے کا رواں ماہ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ سربراہ مملکت کا کسی بھی شخص یا گروہ کو ترجیح دینا غیر آئینی عمل ہے۔ یہ مقدمہ سابق ائیر مارشل اصغر خان کی درخواست پر شروع کیا گیا تھا۔
ناقدین اور چند قانونی ماہرین کے مطابق صدر زرداری جو کہ حمکران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین بھی ہیں ان کا اپنی جماعت کے کارکنوں کے عوامی اجتماع سے خطاب بظاہر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ صدر کا یہ فعل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
’’اگر صدر کے خلاف توہین عدالت ثابت ہوتی ہے تو پھر جس طرح گیلانی صاحب کو (عہدہ) چھوڑنا پڑا تھا تو اس طرح یہ دلیل بن سکتی ہے کہ وہ بھی اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک دوسرے وکیل اور آئینی ماہر بابر ستار کہتے ہیں کہ مسٹر زرداری کا اصغر خان کیس میں جاری کیے جانے والے عدالتی فیصلے میں ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’’ظاہر ہے کہ 20 سالہ پرانا واقعہ ہے اس کے حوالے سے بات ہو رہی تھی مگر ممکن ہے کہ صدر کی سیاسی سرگرمیوں سے متعلق کوئی عدالت جائے اور وہ اس پر فیصلہ کردیں۔‘‘
اگرچہ صدر زرداری نے اپنی تقریر میں براہ راست کسی مخالف سیاسی جماعت کا ذکر نہیں کیا مگر ناقدین کے بقول اپنی حکمران پیپلز پارٹی کے منشور کی تشہیر ضرور کی۔
انہوں نے اپنے خطاب میں جہاں شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو وہیں اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے فلسفے کی بھی تشہیر کی۔
’’ذوالفقار علی بھٹو سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ تو یہ ہماری عبادت ہے، سیاست نہیں اور جو ہماری عبادت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اس سے ہماری جنگ جاری رہے گی۔‘‘
اپنی حکومت کے کارنامے گنواتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صدارتی اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیے اور موجودہ حکومت کے دور میں پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا گیا۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام کو بنیاد بنا کر کیا صدر زرداری کے خلاف کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کا آغاز حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک بار پھر تناؤ کا باعث تو نہیں بنے گا۔
صدر زرداری نے بدھ کو وسطی پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں اپنے حامیوں کے ایک جلسے میں شرکت کی جسے چند مبصرین کے بقول بظاہر تنقید سے بچنے کے لیے عید ملن پارٹی کا نام دیا گیا۔
90 کی دہائی میں اس وقت کے صدر، فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان کی جانب سے سیاستدانوں کو رقوم تقسیم کرنے کے مقدمے کا رواں ماہ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ سربراہ مملکت کا کسی بھی شخص یا گروہ کو ترجیح دینا غیر آئینی عمل ہے۔ یہ مقدمہ سابق ائیر مارشل اصغر خان کی درخواست پر شروع کیا گیا تھا۔
ناقدین اور چند قانونی ماہرین کے مطابق صدر زرداری جو کہ حمکران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین بھی ہیں ان کا اپنی جماعت کے کارکنوں کے عوامی اجتماع سے خطاب بظاہر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ صدر کا یہ فعل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
’’اگر صدر کے خلاف توہین عدالت ثابت ہوتی ہے تو پھر جس طرح گیلانی صاحب کو (عہدہ) چھوڑنا پڑا تھا تو اس طرح یہ دلیل بن سکتی ہے کہ وہ بھی اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک دوسرے وکیل اور آئینی ماہر بابر ستار کہتے ہیں کہ مسٹر زرداری کا اصغر خان کیس میں جاری کیے جانے والے عدالتی فیصلے میں ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’’ظاہر ہے کہ 20 سالہ پرانا واقعہ ہے اس کے حوالے سے بات ہو رہی تھی مگر ممکن ہے کہ صدر کی سیاسی سرگرمیوں سے متعلق کوئی عدالت جائے اور وہ اس پر فیصلہ کردیں۔‘‘
اگرچہ صدر زرداری نے اپنی تقریر میں براہ راست کسی مخالف سیاسی جماعت کا ذکر نہیں کیا مگر ناقدین کے بقول اپنی حکمران پیپلز پارٹی کے منشور کی تشہیر ضرور کی۔
انہوں نے اپنے خطاب میں جہاں شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو وہیں اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے فلسفے کی بھی تشہیر کی۔
’’ذوالفقار علی بھٹو سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ تو یہ ہماری عبادت ہے، سیاست نہیں اور جو ہماری عبادت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اس سے ہماری جنگ جاری رہے گی۔‘‘
اپنی حکومت کے کارنامے گنواتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صدارتی اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیے اور موجودہ حکومت کے دور میں پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا گیا۔