’ـہم بہت خو ش ہیں کہ ہم نے نابینا اور بصارت سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے یہ اسمارٹ کین بنائی ہے جو انہیں پانچ فٹ دور سے ہی بتادے گی کہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ موجود ہے ۔ ہم دونوں نے اس کے لیے بہت زیادہ محنت کی تھی‘ ۔
ا ن تاثرات کا اظہار آ سٹن کے ہارمنی اسکول آف اینڈیور کے آٹھویں گریڈ کے طالب علموں حسن رضوی اور احیان حسن نے کیا جنہوں نے مل کر نابینا افراد کے لیے اسمارٹ چھڑی تیار کی ہے جو پانچ فٹ دورموجود رکاوٹوں کا پہلے سے پتہ دے کر انہیں راستہ چلنے میں آسانی فراہم کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے حسن اور احیان کے ساتھ ساتھ حسن کے والد اور والدہ سے بھی اس پراجیکٹ کے حوالےسے گفتگو کی ۔
اپنے پراجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسن رضوی نے کہا کہ انہوں نے اور احیان نے یہ چھڑی اپنے اسکول کے سائنس پراجیکٹ کے لیے تیار کی تھی جسے وہ اپنا پاتھ فائنڈر پراجیکٹ کہتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاتھ فائنڈر پراجیکٹ نے اسکول کیمپس کے مڈل اسکول ڈویژن میں اول پوزیشن حاصل کرنےکے بعد آسٹن انرجی ریجنل سائنس فیئر کے مقابلے میں بھی اول پوزیشن حاصل کی ، جس کے بعد انہوں نے اسے ٹیکساس کے اے اینڈ ایم اسٹوڈنٹ سنٹر میں ٹیکساس سائنس اینڈ انجینئرنگ فیئر میں جونیئر ۔ انجینئرنگ ٹیکنالوجی مقابلے میں پیش کیا جہاں اس نے اسٹیٹکس اینڈ ڈائنیمکس کیٹیگری میں پہلا انعام جیتا۔
حسن کی والدہ سونیا علی نے اس چھڑی کے حوالے سے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسن بنیادی طور پر ایک نرم دل اور حساس بچے ہیں اور وہ کسی کی بھی تکلیف یا مسئلے کو دیکھ کر اس کی مدد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اس اسمارٹ چھڑی کا خیال بھی انہیں اپنے دادا کی تکلیف کو دیکھ کر آیا تھا جو اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو چکے ہیں اور دوسری آنکھ بھی بہت کمزور ہو چکی ہے۔ اورہ وہ اپنی ٹانگوں میں تکلیف کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور چھڑی کی مدد سے چلتے ہیں ۔
حسن نے والدہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہےکہ انہیں یہ چھڑی بنانے کا خیال اپنے دادا کے مسئلے کو دیکھ کر آیا تھا اور جب ان کے دادا کو اس چھڑی کے بارے میں پتہ چلا تو وہ بہت خوش ہوئے ۔ انہیں یہ خوشی تھی کہ ان کے پوتے نے ان کے بارے میں اتنا سوچا اور کچھ عملی کام کر کے دکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ حسن بھی بہت خوش ہے کہ وہ اپنے دادا اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کے لیے کچھ کرنے میں کامیاب ہوا ۔
احیان کی والدہ انیسہ حسن نے بھی اپنے بیٹے کے بارےمیں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احیان ایک جوائنٹ فیملی میں اپنے دادا دادی کے ساتھ رہتا ہے تو اسے بھی احساس ہے کہ بوڑھے اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ لوگوں کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ان کی مدد کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور اس نے دل و جان سے پراجیکٹ پر رات دن کام کیا ۔
اس چھڑی کی خصوصیات پر بات کرتے ہوئے احیان حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم نے اپنی چھڑی یا ’پاتھ فائنڈر‘ میں ایسے سینسرز لگائے ہیں جو چھڑی کی موٹر کو راستے کی رکاوٹ کے بارے میں سگنل بھیجتے ہیں جس سے چھڑی میں وائبریشن پیدا ہوتی ہے جو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ راستے میں کوئی رکاوٹ موجود ہے ۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سینسرز میں پیدا ہونے والی لہریں پانچ فٹ تک کے فاصلے پرموجود کسی بھی رکاوٹ سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں جس سے چھڑی میں نصب موٹر حرکت میں آ کر وائبریشن پیدا کرتی ہےاور چھڑی والے شخص کو راستے میں رکاوٹ کی موجودگی کا اشارہ مل جاتا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اپنی اسمارٹ چھڑی کا موازنہ مارکیٹ میں دستیاب دیگر چھڑیوں سے کرتے ہوئے احیان نے کہا کہ ان کی اسمارٹ چھڑی میں مارکیٹ میں دستیاب چھڑیوں سے زیاد ہ فیچرز ہیں اور یہ ان سے زیادہ سستی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مارکیٹ میں موجود اسمارٹ چھڑیوں کی قمیت 500 ڈالر تک ہے جب کہ ہم نے اپنی چھڑی صرف پچاس ڈالر میں تیار کی ہے ۔
حسن نے چھڑی کی مزید خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں دستیاب چھڑیاں کسی رکاوٹ کی نشاندہی کے لیے ’’بیپ‘‘ کرتی ہیں اور اگر چھڑی والے نابینا شخص کی سماعت کمزور ہو تو وہ یہ بیپ کی آواز نہیں سن پاتا جس سے اسے رکاوٹ کا پتہ نہیں چلتا۔ جب کہ ہماری چھڑی نابینا شخص کو رکاوٹ سے پانچ فٹ پہلے سے وائبریشن کے ذریعے باخبر کردیتی ہے۔
حسن کا کہنا تھا کہ اس خصوصیت کی بنا پر ہماری اسمارٹ چھڑی نہ صرف نابینا افراد کے لیے موزوں ہے بلکہ ان کے لیے بھی فائدہ مند ہیں جو سماعت سے محروم ہیں یا اونچا سنتے ہیں ۔
احیان حسن اور حسن رضوی تھرڈ گریڈ سے دوست ہیں اور دونوں اس سے قبل بھی اسکول کے سائنسی مقابلوں میں الگ الگ حصہ لے کر ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں یہ پراجیکٹ مکمل کرنے میں چار سے پانچ ماہ لگے اور اب وہ اپنے اس پراجیکٹ کو نیشنل لیول تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے انہیں کچھ انتظار کرنا ہوگا ۔
حسن رضوی کے والد علی اعظم کمپیوٹر سائنس گریجوایٹ ہیں اور اپنا کاروبار کرتےہیں۔جب کہ ان کے دادا جو حسن کے لیے اس اسمارٹ چھڑی بنانے کی تحریک بنے تھے سعودی عرب میں ایک ایروناٹیکل انجنئیر تھے ۔ ان کے نانا اقبال شیخ آسٹن اور کلین ، ٹیکساس میں کمپیوٹر اور میڈیکل کیریئر کے ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سائبر ٹیکس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے فاؤنڈنگ پریزیڈنٹ اور سی ای او ہیں ۔
حسن کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک انتہائی تعلیم یافتہ اور محبت اور شفقت سے بھرے گھرانے میں پروان چڑھ رہے ہیں جو ہر ہر قدم پر ان کی راہنمائی اور مدد کے لیے تیار رہتا ہے ۔
احیان کی والدہ نے جو سری نگر کی ایک میڈیکل گریجوایٹ ہیں اور آسٹن میں ایک ٹیٹنگ سینٹر چلاتی ہیں کہا کہ ان بچوں کی کامیابی میں ان کے اسکول کا بھی بہت ہاتھ ہے جہاں بچوں کو نصابی تعلیم کےساتھ ساتھ ان کی دوسری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
احیان حسن کے والد اعجاز حسن نے وی او سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کے بیٹے اس عمر میں جب کہ دوسرے بچے گیمز اور دوسری تفریحی سرگرمیوں پر زیادہ دھیان دیتےہیں دوسروں کی مدد پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
حسن کے والد کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کریں گے کہ اس چھڑی کو پیٹنٹ کرا لیں جس کے بعد وہ اسے مارکیٹ میں لانے کی کوشش کریں گے ۔
دونوں دوستوں کاکہنا تھا کہ انہیں امید ہےکہ ایک دن آئے گا جب ان کی چھڑی نہ صرف امریکہ بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی نابینا اور متاثرہ بصارت کے افراد کی مدد کے لیے دستیاب ہو گی اور ان کا وہ جذبہ اور محنت رنگ لائے گی جس کےساتھ انہوں نے اسے تیار کیا ہے ۔