سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے باعث افغانستان میں پھنس جانے والے پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کا عمل طورخم سرحد کے ذریعے جمعے کی صبح شروع کر دیا گیا ہے۔
افغانستان سے پاکستان واپس آنے والے باشندوں کے لیے لنڈی کوتل کے گورنمنٹ ڈگری کالج میں قرنطینہ سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ جس میں 1000 افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔
انتظامیہ نے لنڈی کوتل کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز اسپتال میں کرونا وائرس کے تصدیق شدہ مریضوں کے لیے خصوصی نگہداشت وارڈ بھی قائم کر دیا ہے۔ یہ پاکستانی شہری گزشتہ ماہ مارچ سے افغانستان میں تھے۔
سرحد پار افغانستان سے طورخم کے راستے پاکستان واپس آنے والوں کو خصوصی گاڑیوں اور ایمبولینسز کے ذریعے لنڈی کوتل کے ڈگری کالج میں قائم قرنطینہ مرکز میں منتقل کیا جارہا ہے۔
پاکستانیوں کی واپسی کے عمل کی نگرانی کرنے والے لنڈی کوتل کے ڈپٹی کمشنر عمران یوسفزئی کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہریوں اور سامان بردار گاڑیوں کی واپسی کے لیے طورخم کی گزرگاہ کھول دی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ ایک ماہ قبل کرونا وائرس کے باعث سیکڑوں کارگو گاڑیاں افغانستان میں پھنس گئی تھیں۔
پاکستانی باشندوں کی وطن واپسی کی انسداد کرونا ٹیم، ایف سی عملہ، پولیس اور ضلعی انتظامیہ نگرانی کر رہی ہے۔
رواں ماہ چھ سے نو اپریل کے درمیان پاکستان میں کرونا وائرس کے سبب پھنس جانے والے افغان باشندوں کی افغانستان واپسی کا عمل طورخم اور چمن سرحد کے ذریعے مکمل ہوا تھا۔
ان چار دنوں میں صرف طورخم سرحد کے راستے 20 ہزار سے زائد افغان باشندے واپس افغانستان روانہ ہوئے تھے۔
طورخم میں تعینات حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کی سہ پہر تک افغانستان میں پھنسی 70 گاڑیاں پاکستان میں داخل ہوئیں اور ان گاڑیوں کے ڈرائیورز اور اسٹاف کو باقاعدہ طور پر اسکریننگ اور سیناٹائز کرنے کے بعد لنڈی کوتل میں قائم کردہ قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔
ضلع خیبر کے ڈپٹی کمیشنر محمود اسلم وزیر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ کرونا وائرس کے خطرات کے پیشِ نظر طورخم کے سرحدی گزرگاہ پر آمدورفت اور دو طرفہ تجارت انتہائی محدود اور محتاط انداز میں شروع کی گئی ہے اور اس دوران کوشش کی جارہی ہے کہ روزانہ دو سو کے قریب لوگوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ تاکہ انکی قرنطینہ کے مراکز میں دیکھ بھال کی جا سکے۔
افغانستان سے واپس آنے والے پاکستانی باشندوں کے لئے لنڈی کوتل کے ڈگری کالج اور دیگر سرکاری املاک میں قرنطینہ کے خصوصی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
محمود اسلم وزیر نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ تقریباً 1540 افراد کے لیے قرنطینہ کے مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔ جن میں وطن واپس آنے والا ہر شخص 14 دن قیام کرے گا۔
محمود اسلم کے بقول قرنطینہ میں ٹھہرنے والے ہر شخص کو گھر جیسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ کمرہ اور واش روم فراہم کیا گیا ہے۔
سرحد پار افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد کے میڈیکل کالج کے طالب علم کامران خان نے وائس آف امریکہ کو ٹیلیفون پر بتایا کہ پاکستان کے سفارتکاروں نے انہیں طورخم سرحد کھولنے کی اطلاع دی ہے۔ مگر پہلے روز صرف ان گاڑیوں اور ڈرائیورز کو واپس جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جو پچھلے ہفتے افغانستان سامان پہنچانے آئے تھے۔
کامران خان نے بتایا کہ انہوں نے ٹیلیفون کے ذریعے سینیٹر تاج محمد خان آفریدی اور رکن صوبائی اسمبلی شفیق شیر آفریدی سے رابطہ کیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ رکے ہوئے طلبہ کو بھی خصوصی اجازت دی جائے۔ کیونکہ ان لوگوں نے پہلے ہی سے اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے علیحدہ کر رکھا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں پھنسے تبلیغی اراکین
کرونا وائرس کے سبب سرحدی گذرگاہوں کی بندش کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے تبلیغی جماعت کے اراکین بھی شامل ہیں۔
حکام کے بقول افغانستان سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 238 تبلیغی جماعت کے اراکین کو لنڈی کوتل کے قرنطینہ کے مرکز میں رکھا گیا تھا اور یہ تمام لوگ مکمل طور پر صحت یاب ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے تبلیغی جماعت کے اراکین کی افغانستان واپسی کا عمل بھی جمعے کے روز سے شروع کردیا ہے۔ جبکہ افغانستان میں پھنسے ہوئے تبلیغی جماعت کے اراکین کی واپسی کا عمل ہفتے کے روز شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ افغان حکومت کی درخواست پر پچھلے ہفتے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر طورخم اور چمن کی گذرگاہوں کو محدود پیمانے پر آمدورفت اور دو طرفہ تجارت کے لئے کھول دیا گیا ہے۔