کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن اور سرحدی گزرگاہوں کی بندش کی وجہ سے پاکستان میں پھنسے افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ چار روز تک جاری رہنے کے بعد جمعے کو بند ہو گیا ہے۔
وفاقی وزارتِ داخلہ کے اعلامیے کے مطابق طورخم اور چمن کی گزرگاہوں کو چھ اپریل سے نو اپریل تک پاکستان میں پھنسے افغان باشندوں کی واپسی کے لیے کھولا گیا تھا۔
پاکستانی حکومت کے فیصلے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار افغان باشندوں کی افغانستان واپسی کا انتظام کیا گیا تھا۔ مگر اس رعایت سے فائدہ اٹھانے والے افغان باشندوں کی تعداد 20 ہزار سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے دی گئی اس خصوصی رعایت کے دوسرے روز سات اپریل کو ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے طورخم اور سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں جمع ہو گئے۔ جن کو قابو کرنا سرحدی حکام کے بس میں نہیں تھا۔
لہذٰا پاکستان سے واپس جانے والے افغان باشندوں کے لیے سرحد کھول دی گئی اسی روز ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے بغیر کسی پاسپورٹ، ویزہ اور دیگر سفری دستاویزات کے پاکستان سے افغانستان واپس چلے گئے۔
طورخم میں تعینات نادرا اہلکاروں کے مطابق ان چار دنوں کے دوران 20060 افغان باشندے پاکستان سے افغانستان واپس گئے ہیں۔ جن میں سے پہلے روز چھ اپریل کو 1100، تیسرے روز آٹھ اپریل کو 4500 اور آخری روز 4000 افغان باشندے واپس گئے ہیں۔ لیکن دوسرے روز سات اپریل کو واپس جانے والے افغان باشندوں کی تعداد نادرا اہلکاروں کے مطابق 10 ہزار سے زائد تھی۔
طورخم اور لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور تاجروں نے دعویٰ کیا ہے کہ دوسرے روز افغانستان جانے والے افغان باشندوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار کے درمیان تھی۔
لاک ڈاؤن اور سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے نتیجے میں پاکستان میں پھنسے زیادہ تر افغان باشندے تو واپس چلے گئے ہیں۔ مگر پاسپورٹ اور ویزہ پر آنے والے ہزاروں افغان باشندے اب بھی پاکستان میں ہی رکے ہوئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر مریض اور ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا کہ کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد افغانستان کے سرکاری اور نجی اسپتالوں کے مقابلے میں پاکستان کے اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات قدرے بہتر ہیں۔
افغانستان میں پھنسے پاکستانی باشندے
افغان باشندوں کی طرح افغانستان میں بھی ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی باشندے پھنسے ہوئے ہیں اور سرحدی گزرگاہوں کی بندش اور افغانستان میں لاک ڈاؤن سے یہ پاکستانی باشندے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں پھنسنے والے پاکستانی باشندوں میں اکثریت ڈرائیورز اور ٹرانسپورٹرز کی ہے۔ مگر ان میں طلبہ اور افغانستان میں فرائض سر انجام دینے والی بین الاقوامی تنظیموں اور مالیاتی اداروں سے منسلک ملازمین بھی شامل ہیں۔
یہ پاکستانی باشندے بھی وطن واپس آنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے حکومت اور وزیراعظم عمران خان سے سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے درخواست کرتے رہتے ہیں۔
افغانستان کے دارلحکومت کابل سے بخت روان، نورعلی شاہ اور جلال آباد سے کامران خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ رابطہ کر کے حکومت پاکستان بالخصوص وزیر اعظم عمران خان اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان سے اپیل کی کہ افغانستان سے ان کی واپسی کا فوری طور پر انتظام کیا جائے۔
دو دن قبل قبائلی ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر محمود اسلم وزیر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ افغانستان میں رکے ہوئے لوگوں کی واپسی کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
کرونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر افغانستان سے واپس آنے پاکستانی باشندوں کو 14 دنوں کے لیے لنڈی کوتل میں قائم کردہ قرنطینہ مرکز میں رکھا جائے گا۔ تاہم ابھی تک حکام نے اس سلسلے میں باقاعدہ شیڈول یا طریقہ کار کا اعلان نہیں کیا۔