پاکستان میں عید الفطر کے موقع پر چار اردو اور ایک پنجابی فلم کی ریلیز نے ویران سنیما پھر سے آباد کردیے ہیں۔ کہیں عمران اشرف اور امر خان کی فلم 'دم مستم' کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں وجاہت رؤف کی فلم 'پردے میں رہنے دو' کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
لیکن اداکارہ صبا قمر کی فلم 'گھبرانا نہیں ہے' باکس آفس پر ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر فلموں کے مقابلے میں پہلے روز سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم بن گئی ہے جس نے ریلیز کے پہلے ہی روز 68 لاکھ روپے کا بزنس کیا۔
فلم 'گھبرانا نہیں ہے' کا نام سن کر پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا مشہورِ زمانہ جملہ 'سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے' ذہن میں آتا ہے۔ لیکن فلم سازوں کا کہنا ہے یہ فلم دیکھ کر شائقین کو گھبرانا نہیں ہے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونا ہے۔
'جے بی فلمز' اور 'ماسٹر مائنڈ فلمز ' کی جوائنٹ پروڈکشن میں بننے والی فلم 'گھبرانا نہیں ہے' میں اداکارہ صبا قمر کے ساتھ ساتھ زاہد احمد اور سید جبران نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔فلم کی کہانی محسن علی نے لکھی ہے جب کہ اس کی ہدایت ٹیلی ویژن ڈائریکٹر ثاقب خان نے دی ہیں۔
فلم کی کہانی زبیدہ عرف زوبی نامی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کے والد کے ایک پلاٹ پر غیر قانونی قبضہ ہوجاتا ہے اور زبیدہ اس قبضے کو چھڑانے کے لیے فیصل آباد سے کراچی آتی ہے۔ اس دوران اس کا پھوپی زاد بھائی وکی اور ایک پولیس اہلکار سکندر اس کی مدد کرتا ہے۔
'گھبرانا نہیں ہے' میں زوبی کا کردار اداکارہ صبا قمر نے ادا کیا ہے جب کہ فلم میں ان کے پھوپی زاد بھائی کا رول سید جبران اور پولیس اہلکار کا کردار زاہد احمد نے نبھایا ہے۔ یہ تینوں کردار شہر کے سب سے بڑے ڈان 'بھائی میاں' سے پلاٹ واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلم کا پلاٹ (کہانی) کچھ کچھ بالی وڈ فلم 'کھوسلہ کا گھونسلہ' سے مشابہت رکھتا ہے ۔ بھارتی فلم میں بھی پلاٹ پر قبضے کا ذکر ہے جسے چھڑانے کے لیے اس کے اصل مالک ایک ناٹک کمپنی کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن پاکستانی فلم میں معاملے کو کسی اور طرح ہینڈل کیا گیا ہے۔
رائٹر محسن علی نے صبا قمر کے کردار کے ذریعےکئی سماجی برائیوں کی عکاسی کی ہے۔ فلم کے ذریعے ان تمام لوگوں کو پیغام دیا گیا ہے جو بیٹا اور بیٹی میں فرق کرتے ہیں اور بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ 'گھبرانا نہیں ہے' میں یہ بتانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں قانون شکنی کتنی عام ہے اور عوام کو انصاف حاصل کرنے کے لیے کتنی تگ و دو کرنا پڑتی ہےاور کس طرح اس شہر میں لینڈ مافیا سر گرم ہے۔
SEE ALSO: عید الفطر پر چار پاکستانی فلموں کی ریلیز سنیما گھروں کی رونقیں بحال کر سکے گی؟صبا قمر کا کم بیک اور سید جبران کا ڈیبیو
فلم 'گھبرانا نہیں ہے' کے ذریعے دو ٹیلی ویژن اداکاروں سید جبران اور زاہد احمد نے فلم ڈیبیو کیا ہے جب کہ سن 2017 میں بالی وڈ فلم 'ہندی میڈیم' میں کام کرنے والی صبا قمر کی 'گھبرانا نہیں ہے' کے ذریعے فلموں میں واپسی ہوئی ہے۔
صبا قمر کے مداحوں کے لیے اس فلم میں وہ سب کچھ ہے جس کا انہیں انتظار تھا۔ جیسے صبا قمر کا وہ 'مونولاگ' جس میں وہ معاشرے کی برائیوں کو ایک ہی سانس میں بیان کرتی ہیں اور ان کی وہ اداکاری جس کو لوگ بڑے پردے پر مس کررہے تھے۔
اس کے علاوہ ٹی وی ڈیبیو کرنے کے 20 برس بعد فلم کرنے والے سید جبران کی اداکاری کو بھی خوب پسند کیا گیا جو ہر اس عاشق کی ترجمانی کرتا ہے جسے بھائی کے لفظ سے نفرت ہے اور جو اپنے محبوب کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
فلم میں وکی (سید جبران) آن لائن ٹیکسی ڈرائیور ہوتا ہے جو زوبی کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتاہے۔ زوبی کے والد اور اپنے ماموں کے ساتھ ناانصافی کا بدلہ لینے کے لیے وہی سب سے پہلے زوبی کا ساتھ دیتا ہے۔
اداکار زاہد احمدنے اس فلم میں ایک ایسے ہیرو کا کردار بخوبی نبھایا ہے جو آغاز میں ا یک کرپٹ پولیس افسر ہوتا ہے لیکن اسے محبت ایک فرض شناس افسر بنادیتی ہے۔
زاہد احمد کا کردار کیسے ایک نکمے پولیس افسر سے ایک دبنگ پولیس والا بنتا ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو سنیما کا رخ کرنا پڑے گا۔
'گھبرانا نہیں ہے' میں تینوں اداکاروں کو اپنی پرفارمنس دکھانے کا بھرپور موقع ملا ہے جسے امید ہے کہ ان کے فینز پسند کریں گے۔ البتہ دوسرے ہاف میں فلم میں سلیم معراج کی انٹری کے بعد اس تکون کو ایک چوتھا ساتھی مل گیا جس نے کم وقت میں شائقین کو اپنی طرف مائل کرلیا۔
فلم میں گانوں اور فائٹ کی کمی
فلم کے ڈائیلاگ تو محسن علی کے ہیں لیکن اس کے اسکرین پلے پر ان کے ساتھ ساتھ ہدایت کار ثاقب خان نے بھی کام کیا ہے۔ یہ دونوں کی مشترکہ کاوش تھی بعض ڈائیلاگ تو اتنے برجستہ تھے کہ ان پر داد بنتی ہے۔
ایک موقع پر جب ایک کردار دوسرے کو بتاتا ہے کہ اس نے سن 1992 میں ایک پلاٹ خریدا جس پر قبضہ ہوگیا ہے تو دوسرے کردار کا جواب شائقین کو مسکرانے پر مجبور کردے گا۔ اس جملے میں مصنف 1992 کے ورلڈ کپ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
SEE ALSO: 'چل میرا پت ٹو' سمیت بھارتی پنجابی فلموں کی پاکستان میں ریلیز: کیا فن کاروں کو فائدہ ہوگا؟تاہم فلم کے پروڈیوسرز معروف موسیقار شجاع حیدر کو 'گھبرانا نہیں ہے' میں ٹھیک طرح استعمال نہ کرسکے اور شائقین نے فلم میں گانوں کی کمی کو محسوس کیا۔
فلم کے آغاز میں ایک کلب سونگ تھا۔ اس کے علاوہ دو تین مرتبہ بیک گراؤنڈ میں تو گانا بجا لیکن سنیما سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں کو وہی گانا یاد رہا جو کریڈیٹس کے ساتھ چلا۔'الف' اور 'باغی' جیسے ڈراموں کے ٹائٹل ٹریک بنانے والے شجاع حیدر کو فلم میں مارجن دینا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنے اسٹائل میں گانے بنا سکتے۔
اسی طرح فلم میں فائٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھی اور فلم میں جتنے بھاری بھرکم ولن دکھائے گئے ان کی پٹائی نہ ہونے کو مایوس کن کہا جاسکتا ہے۔
'گھبرانا نہیں ہے' میں گانوں اور فائٹ کی کمی کی وجہ سے فلموں سے محبت کرنے والے شائقین جو ایک فلم بار بار دیکھتے ہیں، وہ شاید کسی اور فلم کا رخ کرلیں جہاں مار دھاڑ کے ساتھ گانوں کی بھی بھرمار ہو کیوں کہ ٹی وی اور سنیما کو فائٹ اور گانے ہی ایک دوسرے سےالگ بناتے ہیں۔
'گھبرانا نہیں ہے' ہدایت کار ثاقب خان کی پہلی فلم ہے اس لیے اس میں کمی بیشی کو ناتجربہ کاری کہہ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے لیکن فلم کا دورانیہ اور اس میں غیر ضروری کرداروں کی تعداد زیادہ ہونا شائقین کو بور کرسکتی ہے۔
تھیٹر اداکار اکبر اسلام جنہوں نے بھائی میاں کے وکیل کا کردار ادا کیا ہے، ان کےبغیر بھی فلم کی کہانی میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔اس فلم میں نوے کی دہائی کے مشہور اداکار افضل خان عرف جان ریمبو کی صلاحیتوں سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔اس کے علاوہ فلم میں بلاگر جنید اکرم اور صحافی امین حفیظ بھی مختصر رول میں نظر آئے۔