امریکہ کے کیوبا میں قائم قید خانے گوانتاناموبے میں 18 برس تک قید میں رہنے والے پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ واپس وطن پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کی رہائی اور واپس پاکستان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتے کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ وزارتِ خارجہ نے سیف اللہ پراچہ کی واپسی کے لیے ایک وسیع انٹر ایجنسی پراسس مکمل کیا۔
امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگان) نے بھی سیف اللہ پراچہ کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اُنہیں گوانتاناموبے کے حراستی مرکز سے اُن کے ملک واپس بھجوا دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تفصیلی جائزے کے بعد اس بات کا تعین ہو چکا ہے کہ سیف اللہ پراچہ سے اب امریکہ کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔
بیان کے مطابق رواں برس ستمبر میں امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کانگریس کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ مشاورت اور ضروری کارروائی مکمل ہونے کے بعد پراچہ کو پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا۔
امریکی محکمہ دفاع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان اور دیگر شراکت داروں کی ان کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس میں وہ گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے اور آخرکار اس مرکز کو بند کرنے کے ارادے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیف اللہ پراچہ کو 2003 میں تھائی لینڈ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ستمبر 2004 میں انہیں گوانتانامو بے منتقل کیا گیا تھا۔ انہیں القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم ان پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوسکا۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ''ہمیں خوشی ہے کہ بیرونِ ملک حراست میں رہنے والےپاکستانی شہری اپنے خاندان سے دوبارہ مل گئے ہیں۔''
پاکستان کے وزیرِخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی سیف اللہ پراچہ کی رہائی اور وطن واپسی پر خوشی کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ گوانتاموبے کے سب سے معمر قیدی 75 سالہ سیف اللہ پراچہ کی رہائی کی منظوری مئی 2021 میں دی گئی تھی۔
سیف اللہ پراچہ کی وکیل شلبی سولوین بنس نے کہا تھا کہ ان کے ہمراہ دو دیگر افراد کو بھی قیدیوں کی معاملات کی جانچ کرنے والے بورڈ نے کلیئر قرار دیا۔
سیف اللہ پراچہ کون ہیں؟
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سیف اللہ پراچہ امریکہ میں بھی مقیم رہے تھے جب کہ ان کی نیو یارک میں جائیداد بھی تھی۔ وہ پاکستان میں کاروبار کرتے تھے اور دولت مند شخصیت مانے جاتے تھے۔
حکام نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے معاون تھے اور اُنہوں نے امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کی سازش میں ملوث دو افراد کو بینک کے ذریعے پیسے منتقل کیے تھے۔
SEE ALSO: القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں گرفتار پاکستانی امریکی جیل سے رہا
سیف اللہ نے ان پر لگنے والے الزامات کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ جن افراد کو انہوں نے رقم منتقل کی ہے ان کا تعلق القاعدہ سے ہے، جب کہ انہوں نے کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
اس سے قبل سیف اللہ پراچہ کے بیٹے 40 سالہ عزیز پراچہ کو مارچ 2020 میں اپنا گرین کارڈ سرنڈر کرنے کے بعد پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔