پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار سے بھارتی افواج کی گولہ باری سے متاثرہ وادی نیلم کے مرکزی قصبے آٹھ مقام کے سینکڑوں افراد نے ہفتہ کو سفید پرچم اٹھا کر مظفر آباد کی طرف مارچ کیا۔
بدھ کو بھارتی فوج کی طرف سے وادی نیلم میں ایک مسافر کوچ پرفائرنگ سے دس افراد مارے گئے تھے اور اتنی ہی تعداد میں زخمی بھی ہو ئے تھے۔ جن میں سے ایک جمعہ کے روز شدید زخموں کے باعث مظفر آباد میں دم توڑ گیا۔
اس واقعے کے بعد حکومت کی طرف سے وادی نیلم کو جانے والی ٹریفک ایک دشوار گزار بائی پاس کی طرف موڑی جا رہی تھی۔
امن مارچ کے شرکاء نے بھارتی اور پاکستانی افواج کے مورچوں کے سامنے سے گزرنے والی وادی نیلم کو مظفر آباد سے ملانے والی سڑک پر اس مقام تک مارچ کیا جہاں سے سول انتظامیہ نے بھارتی فوج کی طرف سے فائرنگ کے خطرے کے پیش نظر گاڑیوں کو وادی نیلم میں داخلے سے روک رکھا تھا۔ امن مارچ کے شرکا نے رکاوٹیں ہٹاکر ٹریفک کھول دی۔
امن مارچ میں شریک مدثر مقبول نے وی او اے کو بتایا کہ انہیں صرف امن کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ 18 ستمبر کو بھارتی کشمیر کے علاقے اوڑی میں فوجی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے ایک مبینہ حملے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کا شروع ہونے والا سلسلہ نہ صرف معمول بن چکا ہے بلکہ اس میں شدت بھی دیکھی جا رہی ہے۔
وادی نیلم کو مظفر آباد سے ملانے والی واحد شاہراہ 1990ء سے 2003ء تک دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان گولہ باری و فائرنگ کے تبادلے کے باعث بند رہی تھی جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا اور اس علاقے کے سیکڑوں افراد فائرنگ و گولہ باری کے باعث موت کا بھی شکار ہوئے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2003ء میں فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔