دہشت گردی کے خلاف کوششیں جاری رکھنے کے عزم اور دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں سے اظہار یکجہتی سے متعلق امریکی صدر براک اوباما کے بیان کا پاکستانی قانون سازوں نے خیر مقدم کیا ہے۔
واشنگٹن میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھے گا اور وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سامنا کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہیں۔
ان کے بقول یہ دہشت گردی چاہے پاکستان کے اسکول میں ہو یا فرانس کی سڑکوں پر۔
پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما کی طرف سے دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے لیے خیرسگالی کے اظہار پر وہ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانیوں کی قربانیوں کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
"میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو ان کا اظہار ہے کہ اس کو کسی حمایت یا معاونت کی شکل میں تبدیل کیا جانا چاہیے جہاں امریکہ نے بے انتہا پیسہ خرچ کیا انسداد دہشت گردی کی جنگ میں اور جہاں پاکستان نے اس میں بھرپور ساتھ دیا وہاں ہمارے عوام نے بھی اس جنگ میں بے پناہ ذاتی نقصان اٹھایا۔۔۔۔گوکہ امریکہ کے صدر نے جو بیان دیا اس پر ہم خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن اس پر اگر وہ اور بھی زور دیتے تو دنیا کو ایک بہتر پیغام جاتا کہ پاکستان نے جو قربانیاں دیں ہیں وہ کس معیار کی ہیں۔"
متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل کہتی ہیں کہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ صدر اوباما کو اس بات کا احساس ہے کہ دہشت گردی سے پاکستانیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔
"اگر پوری دنیا میں ایک ہی معیار ہو جائے دہشت گردی کے خلاف کہ کوئی کسی کا ہیرو ہے تو دوسرے کا دہشت گرد نہ ہو تو پھر یقیناً ہم توقع کرسکتے ہیں کہ اب بہتر صورتحال پیدا ہوگی اور بیخ کنی ہوسکے گی دہشت گردوں کی۔ ہم اس کو سراہتے ہیں کہ ان (صدر اوباما) کو کم ازکم اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا۔"
پاکستان انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے جس میں اس کے 50 ہزار کے لگ بھگ لوگ مارے جاچکے ہیں جب کہ معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
امریکہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پاکستان کی حمایت اور معاونت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔