پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے امور خارجہ کے ایک بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے سفارتی آداب کے منافی اور پاکستانیوں کے عزت نفس کی ہتک کے مترادف ہے۔
پاکستانی پارلیمان نے رواں ہفتے ہی ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں یمن تنازع میں حکومت کو غیرجانبدار رہتے ہوئے مصالحتی کردار ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے وزیر ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے پاکستانی پارلیمان کے فیصلے کو متضاد اور غیر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے فیصلے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اماراتی وزیر کے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے پیغام پر پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے یہ کہہ کر کوئی ردعمل نہیں دیا کہ انھیں تحریری طور پر کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا اور وہ میڈیا پر آنے والے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتیں۔
لیکن اتوار کو وزیر داخلہ نے اپنے ایک بیان میں رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے "یہ ایک بڑی ستم ظریفی ہی نہیں بلکہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات کا ایک وزیر پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔"
ان کے بقول پاکستانی قوم ایک غیرت مند قوم ہے اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کے لیے بھی برادرانہ جذبات رکھتی ہے۔ "اماراتی وزیر کا یہ بیان پاکستان اور اس کے عوام کی عزت نفس کی ہتک کے مترادف اور ناقابل قبول ہے۔"
یمن میں مبینہ طور پر ایران کے حمایت یافتہ شیعہ حوثی باغیوں نے حکومت کی عملداری تقریباً ختم کرتے ہوئے مختلف علاقوں پر قبضوں کے لیے کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں اور ان باغیوں کے خلاف سعودی عرب نے اپنے خلیجی اتحادیوں کے ساتھ مل کر گزشتہ ماہ کے اواخر سے فضائی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں اور اس آپریشن میں شرکت کے لیے اس نے پاکستان سے بھی رابطہ کر رکھا ہے۔
سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے اور اس کے شاہی خاندان کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے دوستانہ مراسم ہیں جب کہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے۔
اس سے قبل ہفتہ کو دیر گئے پاکستان اور ترکی نے یمن کے تنازع کا مذاکراتی حل تلاش کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو ٹیلی فون کیا جس میں دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کی موجود صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق یہ ٹیلی فونک گفتگو 45 منٹ تک جاری رہی جس میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ شیعہ حوثی باغیوں کو یمن کی آئینی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کا حق حاصل نہیں۔
ترک صدر اور پاکستانی وزیراعظم نے مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پرامن حل کے لیے باقاعدہ مشاورت جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔
پاکستان میں اکثریتی رائے بھی یہی ہے کہ اسلام آباد کو ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اس تنازع میں فریق نہیں بننا چاہیئے۔
سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عرب ممالک جہاں شہنشاہیت ہے، ان کے نزدیک پارلیمانی قرارداد غالباً کوئی اہمیت نہیں رکھتی لہذا پاکستان کو چاہیئے کہ وہ مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ شامل کرے۔
"اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ اور ملک بھی اس طرف دلچسپی لیں تبھی جا کر صورت حال بہتر ہو گی کیونکہ پاکستان یمن کے اندر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان نے تو بڑی واضح پوزیشن یمن پر لے لی ہے اور وہ پوزیشن وہی ہے جو سعودی عرب کی ہے تو پھر اگر انھوں نے صلح کروانی ہے تو حوثیوں سے کس حیثیت سے بات کریں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال دور اندیشی کا تقاضا کرتی ہے اور اس موقع پر پاکستان جو کردار ادا کرے گا اس کے منفی یا مثبت اثرات پاکستان کے مستقبل پر پڑیں گے۔