دنیا بھر میں ’می ٹو‘ تحریک کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے اور اس کا اثر اب پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی نظر آ رہا ہے جہاں صحافت اور بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین نے اپنے کئی صاحب اختیار مرد کولیگز کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں۔
ایسے میں ہم نے پاکستان کے نیوز روم میں اس مسئلے کاجائزہ لینے کے لئے کچھ خواتین صحافیوں سے بات کی۔
ماضی میں ایک مقامی چینل سے رپورٹر کے طور پر وابستہ رہنے والی لائبہ زینب کہتی ہیں کہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو نیوز روم میں داخل ہونے کے پہلے ہی قدم سے تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی خاتون انٹرویو دینے جاتی ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کب شادی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، کیوں کہ عام تاثر یہ ہے کہ خواتین شادی کے بعد نوکری نہیں کرتیں تو انہیں رکھا ہی نہ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں شروع ہی سے خواتین کی پوزیشن کمزور ہو جاتی ہے۔ جنسی ہراس کے واقعے پر آواز اٹھانا بہت محال ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ دیر تک آفس میں کام کر رہے ہیں، آفس میں لڑکوں سے بات کر رہے ہیں یا ڈرائیور سے بات کر رہے ہیں، آپ کے کردار پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ کیمرہ مین سے سختی سے بات کی جائے، جب کہ یہ سب ٹیم ورک کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نیوز رومز میں خواتین کی چال ڈھال، مزاج، لباس اور میک اپ کرنے یا نہ کرنے سے ان کے کردار کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
صحافی اور رپورٹر فرحت جاوید ربانی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو خواتین روایات کو فالو نہیں کرتیں ان کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جنسی طور ہراساں کرنے کا کیس جب ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تو کمیٹی کی ایک خاتون ممبر نے ہی متاثرہ خاتون کے متعلق لکھا کہ ’’اس کا لباس ایسا تھا کہ یہ جنسی ہراس کو دعوت دیتی تھی۔‘‘
صحافی منروا طاہر کہتی ہیں کہ جو خواتین معاشرے کے بنائے ہوئے قاعدوں سے ہٹتی ہیں، وہ قبول نہیں کی جاتیں۔ اسی لئے جو خواتین صاحب اختیار بھی ہوتی ہیں وہ بھی مردوں کی حرکات کو نظر انداز کرتی ہیں، کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ کچھ کرنے پر وہ اپنی قبولیت کھو بیٹھیں گی۔
آخر صحافی خواتین آواز اٹھانے سے گھبراتی کیوں ہیں؟ صحافی اور ایڈیٹر صباحت زکریا نے کہا کہ جب انہوں نے ایک سینئیر کو ایک کافی جونئیر کے حوالے سے ایک جملہ کستے دیکھا، اور اس پر سرزنش کی تو ان کے سینئیر کو ایسا کرنا پسند نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہاں پر ایک پورا کلچر ہے کہ آپ کو فیمنسٹ ہونے کا الزام دیا جاتا ہے۔ اس کا دور رس نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ ’بوائز کلب‘ سے باہر کر دیئے جاتے ہیں، کہ یہ تو سنکی ہے اور محض تبصرہ کرنے پر لوگوں کی سرزنش کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جرنلزم میں بھی سب کچھ آپ کے رابطوں پر ہوتا ہے۔ جو زیادہ تر آفس سے باہر یا نیٹ ورکنگ سے بنتے ہیں۔ اور ایسے میں آپ پیچھے رہ جاتے ہیں۔
صحافی اور رپورٹر فرحت جاوید ربانی نے کہا کہ ایک نیوز روم میں اگر کوئی خاتون ہراساں ہونے پر آواز اٹھاتی ہے، ہراس کرنے والے کو ’شٹ اپ‘ کال دیتی ہے تو سب سے پہلے تو اس کا سوشل بائیکاٹ نیوز روم میں ہی ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہراساں کرنے والا شخص طاقتور ہو، اور ایسے لوگ طاقتور ہی ہوتے ہیں, کیونکہ جو لوگ کمزور ہوتے ہیں ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کسی کو ہراساں کریں, تو خاتون کی کردار کشی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ فیلڈ میں بھی جاتے ہیں تو آپ کو اس کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔
’’اصل بات یہ ہے کہ آپ کی ساکھ کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر آپ کو ہراساں کرنے والا بندہ آپ کا باس ہے۔ یا سینئیر ہے تو پھر آپ کے جو پروفیشنل معاملات ہیں ان میں آپ کو تنگ کیا جاتا ہے۔ آپ کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں شو کاز نوٹس دئے جاتے ہیں۔ میں ایسی خواتین کو جانتی ہوں جن کا کام ٹی وی پر نہیں چلایا گیا، ان کے پیکج روک لئے گئے، یا ان کی بائے لائن کاٹ دی گئی۔ ‘‘
’’تو جو خاتون کیس کرتی ہے، اور ‘وکٹم’ بننے سے انکار کرتی ہے اس کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔ آپ کو ذاتی طور پر بھی ٹارچر کیا جا رہا ہوتا ہے اور آپ کو پروفیشنلی بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہوتا ہے۔‘‘
فرحت جاوید نے بتایا کہ اکثر اداروں میں جب ہراسمنٹ کا کیس آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی ایسی کمیٹی ہی نہیں جو ایسے معاملات کو دیکھ سکے، پھر جب جلدی جلدی کمیٹی بنائی جاتی ہے تو اس کمیٹی کے ممبر عام طور پر ہراس کرنے والے طاقتور شخص کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ اور اسی لئے اکثر خواتین کو وفاقی محتسب کے پاس جانا پڑتا ہے۔
فرحت جاوید کا کہنا تھا کہ ان کمیٹیوں کے احتساب کا بندوبست بھی ہونا چاہئے تا کہ اگر کسی کو ناجائز طور پر بچایا جا رہا ہے تو اس کا بھی سدباب ہو سکے۔