پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ کے ارکان نے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم مسلم ملکوں کے اتحاد کو ایران مخالف قرار دیتے ہوئے حکومت سےاس میں شمولیت کی شرائط سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پر تقریر کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ حال ہی میں سعودی عرب میں ہونے والے اسلامی ملکوں اور امریکہ کے مشترکہ سربراہی اجلاس میں جس طرح ایران مخالف جذبات کا اظہار کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ اتحاد دہشت گردی نہیں بلکہ ایران کے خلاف بنایا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے اس اجلاس کا ایجنڈا دہشت گردی کے سدِ باب کے لیے امریکہ اور مسلم ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ پر بات چیت کرنا تھا۔
لیکن اجلاس میں ہونے والی تقریروں اور بعد ازاں مشترکہ اعلامیے میں ایران کے رویے پر تنقید سرِ فہرست رہی تھی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران پر دہشت گردوں کو "محفوظ ٹھکانے، مالی مدد اور بھرتیوں کے لیے درکار وسائل" فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلم ملکوں اور بین الاقوامی برداری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنے میں امریکہ کی مدد کریں۔
اجلاس کے میزبان سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی اپنے خطاب میں ایران پر "توسیع پسندانہ عزائم، مجرمانہ طرزِ عمل اور دیگر ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے" کے الزامات عائد کیے تھے۔
اجلاس میں درجنوں مسلم ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ قیادت شریک تھی جس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں بھی ایران کو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مختلف ملکوں میں ایران کے "غیر قانونی اور تباہ کن ہتھکنڈوں" کو باہمی تعاون سے ناکام بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
جمعرات کو سینیٹ میں بحث کے دوران فرحت اللہ بابر نے موقف اختیار کیا کہ سربراہی اجلاس سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ ایران دہشت گردی کی جڑ ہے اور مسلم دنیا کا حصہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سعودی اتحاد میں شمولیت کی شرائط پارلیمان کے سامنے رکھیں گے لیکن حکومت اس اہم معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہی ہے۔
وزیرِاعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ سعودی اتحاد ایران مخالف ہے۔
انہوں نےکہا کہ سربراہی اجلاس کا اعلامیہ ایک سیاسی بیان تھا جس کا سعودی اتحاد کے قواعد و ضوابط سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ریاض کانفرنس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں موجود فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہوئی ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد کی شرائط اور طریقہ کار تاحال طے نہیں پایا ہے اور جیسے ہی معاملات طے پائیں گے تمام شرائط پارلیمان کے سامنے پیش کردی جائیں گی۔
سرتاج عزیز نے ایوان کو بتایا کہ اتحاد کے ارکان یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے کہ وہ اتحاد کی کس کارروائی میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور کس میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کی اتحاد میں موجودگی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے ایک اور سینیٹر اعتزاز احسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ سرتاج عزیز کا سینیٹ میں بیان یہ حقیقت چھپانے کی ایک کوشش تھا کہ معاملات پاکستانی حکومت کے ہاتھ میں نہیں رہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت اتحاد کے مقاصد جانے بغیر اس میں شامل ہوگئی تھی اور ریاض کانفرنس میں بھی اجلاس کا ایجنڈا جانے بغیر جا پہنچی تھی۔ ان کے بقول ریاستیں اس طرح نہیں چلتیں۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو بھی نہیں معلوم کہ انہیں اتحاد میں کیا ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان حکومت کو پابند کرچکی ہےکہ پاک فوج کسی مسلم ملک کی طرف سے کسی دوسرے مسلم ملک کے خلاف کسی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بنے گی۔
سعودی عرب کی حکومت نے مسلم ملکوں کے دفاعی اتحاد کا اعلان دسمبر 2015ء میں کیا تھا۔ پہلے پہل اس اتحاد میں 34 مسلم ممالک شامل تھے جن کی تعداد اب 40 تک جاپہنچی ہے۔
لیکن اس اتحاد کے مقاصد اور کارروائی کا طریقہ کار ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود تاحال واضح نہیں۔