پشاور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں اعلی سطحی وفد اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کے درمیان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہو گیا ہے۔
پیر سے جاری مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہونے پر کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کیا ہے۔ کابل میں دو روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بارے میں پاکستان نے سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ البتہ افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پوسٹ میں ان مذاکرات کی تصدیق کردی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان حکومت کی ثالثی سے حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں۔ متعلقہ امور پر پیش رفت کے لیے مذاکرات کے دوران عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان نے بھی اپنے بیان میں نہ صرف مذاکرات مکمل ہونے کا ذکر کیا ہے بلکہ بتایا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرت میں فریقین نے 30 مئی تک فائر بندی پر اتفاق کیا ہے۔
کابل سےموصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پشاور کے کور کمانڈر اور پاکستان کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں اعلی سطح کے وفد اور کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات منگل کی شام ختم ہوئے جس کے بعد پاکستانی عہدے دار کابل سے واپس روانہ ہوگئےتھے۔
کابل میں ہونے والے مذاکرات میں شریک کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے نام ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں البتہ افغان صحافیوں کے مطابق وفد کی قیادت کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود خود کررہے تھے۔
شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے پیرکو اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران ٹی ٹی پی سوات کے مسلم خان اور ملک محمود کے نام لیے تھے ۔ انہوں نے استفسار کیا تھا کہ عدالتوں سے سزا یافتہ دو کمانڈروں مسلم خان اور ملک محمود کو کس کی اجازت سے رہا کیا گیا تھا؟
مذاکرات میں کس نے معاونت کی؟
کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں جنوبی وزیرستان کے 32 رکنی جرگے کے علاوہ مالاکنڈ کی 16 افراد پر مشتمل کمیٹی نےبھی کردار ادا کیا ہے۔
سابق قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے بقول جرگے میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما اور سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی کے بانی کمانڈر ملا بیت اللہ محسود کے سسر اکرام الدین محسود نمایاں ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کابل میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور طالبان کی افغانستان میں عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: جنرل فیض حمید دو دن سے افغانستان میں موجود، حکام تصدیق کرنے سے گریزاںمذاکرات کا مستقبل
خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کابل میں ہونے والے مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان بات چیت کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔
اُن کے بقول ایک دور میں جنرل فیض حمید کی طرح ایک اور کور کمانڈر جنرل صفدر بھی طالبان کمانڈر نیک محمد کے ساتھ بات چیت کے لیے گئے تھے، بلکہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان کی فوج اور طالبان کے درمیان یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔
سید اختر علی شاہ نے کہا کہ مذاکرات اور بات چیت سے ہمیشہ طالبان نے فائدہ اٹھایا ہے تاہم پس پردہ گفت و شنید یا معاہدوں کی تفصیلات سامنے آنے تک ان کے مستقبل پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق طالبان کی جانب سے مصالحت کی شرائط اتنی نرم نہیں ہیں اور ان پر عمل در آمد کرنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
ماضی قریب میں افغانستان میں طالبان کے بر سرِ اقتدار آنے کےبعد کالعدم حقانی نیٹ ورک کی وساطت سے پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔
ٹی ٹی پی نےگزشتہ برس یکم نومبر سے جنگ بندی کا اعلان کیا تھالیکن بعدازاں طالبان نے حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے دسمبر کے اوائل میں جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد ٹی ٹی پی کی پر تشدد کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
SEE ALSO: کراچی دھماکہ: ذمے داری قبول کرنے والی 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' کب اور کیسے بنی؟افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔
افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان حقانی نیٹ ورک کی وساطت سے مصالحت کے لیے بات چیت شروع ہوئی تھی۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر 2014 میں حملے کے متاثرین کے سمیت پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور سول سوسائٹی کی بعض تنظیموں نے اس وقت حکومت کے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔