پاکستان میں انسانی حقوق کی موقر تنظیم "ایچ آر سی پی" نےصدر پاکستان ممنون حسین سے ایک معذور مجرم کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے اور اس کے لیے معافی کا پر زور مطالبہ کیا ہے۔
ایک عدالت نے 42 سالہ مجرم عبدالباسط کی سزا موت پر عمل درآمد کے لیے 22 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
عبدالباسط اس وقت فیصل آباد جیل میں قید ہے اور اسے 2009 میں قتل کے ایک مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ دوران قید مجرم تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو کر طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کیے گئےایک بیان میں مجرم کی سزا پر عمل درآمد کے اعلان پر نہایت دکھ کا اظہار کرتے ہوئے صدر پاکستان سے اسے معاف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ایچ آر سی پی نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ عدالتوں نے اس بارے میں ان درخواستوں کو بھی مسترد کر دیا جس میں معذور افراد کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے تحت خصوصی سلوک کا کہا گیا ہے جب کہ عبدالباسط کی صدر پاکستان کے نام رحم کی اپیل پر بھی تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم رکن اور وکیل سارہ بلال نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے جیل کے قواعد و ضوابط میں معذور افراد کو پھانسی دینے کے بارے میں واضح احکامات موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی ایک معذور شخص کو تختہ دار پر لٹکایا جانا کسی بھی طور درست نہیں ہوگا اور ایسے میں جب کہ مجرم دوران قید ہی طبی پچیدگیوں کی وجہ سے مفلوج ہو گیا ہو۔
گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک اسکول پر ہوئے مہلک حملے کے بعدحکومت نے سزائے موت پر عمل دارآمد پر عائد پابندی کو ختم کر دیا اور اس کے بعد سے اب تک 230 سے زائد مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں دہشت گردی کو کنڑول کرنے کے لیے قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔