بچوں کو دیے جانے والے کھلونے صرف کھلونے ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک علامت ایک ذہنی تربیت ہوتی ہے۔
اسلام آباد —
کھلونے ہمیشہ ہی سے بچوں کی دلچسپی کا مظہر رہے ہیں۔ بچپن کے مختلف کھلونے اور دیگر مشاغل تا عمر انسان کے ذہن میں ایک خوشگوار یاد بن کر تازہ رہتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی کھلونوں اور کھیل کی ہیئت بھی بدلتی چلی گئی۔
آج کل کے بچوں کو کھلونوں میں جہاں مشہور زمانہ سائنسی کہانیوں کے کردار بہت پسند ہیں وہیں مختلف انواع و اقسام کے اسلحہ کی شکل کے کھلونے بھی ان کے کھیل کا دلپسند حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
ایسے کھلونوں سے بچوں کی ذہنی نشونما پر پڑنے والے اثرات سے آگاہی کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم نے اسلحہ نما کھلونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
پختونخواہ کلچرل فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے کارکنان مالاکنڈ اور سوات کے اسکولوں اور مخلتف بازاروں میں کھلونا بندوق کے خلاف مہم چلانے کے بعد اسلام آباد میں جمع ہوئے اور حکومت سے اس ضمن میں اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد روم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بچوں کو دیے جانے والے کھلونے صرف کھلونے ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک علامت اور ایک ذہنی تربیت ہوتی ہے۔
’’اگر ایک چھوٹے بچے کو ہم یہ تربیت دیتے ہیں تو آگے چل کر ان کے لیے بندوق استعمال کرنا کوئی نئی بات تو نہیں ہوگی نا، تو کھلونے ایسے دیں جو ان کی ذہنی تربیت میں اس کا ساتھ دے اور آگے جا کر وہ ایک پرامن اور فعال شہری بنے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھیوں نے خیبرپختونخواہ کے علاوہ کراچی میں اسلحہ نما کھلونوں کے خلاف شعور بیدار کرنے کا آغاز کیا ہے۔
محمد روم کا کہنا تھا کہ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ایسے کھلونوں کی بازار میں فروخت کو ختم نہیں کیا جاتا اور حکومت اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہیں کرتی۔
مبصرین بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ بچوں کے معصوم ذہن اس طرح کی سرگرمیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی صحت مندانہ پرورش کے لیے تشدد اور انتہا پسندی کا باعث بننے والے لوازمات سے پرہیز ضروری ہے۔
سماجی و انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن اور سیاستدان بشریٰ گوہر کہتی ہیں کہ ’’ سول سوسائٹی نے یہ آواز اٹھائی ہے بچوں کو بچپن ہی سے اس طرح راغب نہ کیا جائے، بندوقوں کی وجہ سے ساری قوم تباہی کی طرف جارہی ہے جو طالبان کا سا کلچر لایا جا رہا ہے تو حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کھلونوں کے علاوہ حکومت کو یوٹیوب کی بجائے انٹرنیٹ پر ایسے مواد کو بھی بند کرنا چاہیے جو نفرت اور تشدد کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
آج کل کے بچوں کو کھلونوں میں جہاں مشہور زمانہ سائنسی کہانیوں کے کردار بہت پسند ہیں وہیں مختلف انواع و اقسام کے اسلحہ کی شکل کے کھلونے بھی ان کے کھیل کا دلپسند حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
ایسے کھلونوں سے بچوں کی ذہنی نشونما پر پڑنے والے اثرات سے آگاہی کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم نے اسلحہ نما کھلونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
پختونخواہ کلچرل فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے کارکنان مالاکنڈ اور سوات کے اسکولوں اور مخلتف بازاروں میں کھلونا بندوق کے خلاف مہم چلانے کے بعد اسلام آباد میں جمع ہوئے اور حکومت سے اس ضمن میں اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد روم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بچوں کو دیے جانے والے کھلونے صرف کھلونے ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک علامت اور ایک ذہنی تربیت ہوتی ہے۔
’’اگر ایک چھوٹے بچے کو ہم یہ تربیت دیتے ہیں تو آگے چل کر ان کے لیے بندوق استعمال کرنا کوئی نئی بات تو نہیں ہوگی نا، تو کھلونے ایسے دیں جو ان کی ذہنی تربیت میں اس کا ساتھ دے اور آگے جا کر وہ ایک پرامن اور فعال شہری بنے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھیوں نے خیبرپختونخواہ کے علاوہ کراچی میں اسلحہ نما کھلونوں کے خلاف شعور بیدار کرنے کا آغاز کیا ہے۔
محمد روم کا کہنا تھا کہ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ایسے کھلونوں کی بازار میں فروخت کو ختم نہیں کیا جاتا اور حکومت اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہیں کرتی۔
مبصرین بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ بچوں کے معصوم ذہن اس طرح کی سرگرمیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی صحت مندانہ پرورش کے لیے تشدد اور انتہا پسندی کا باعث بننے والے لوازمات سے پرہیز ضروری ہے۔
سماجی و انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن اور سیاستدان بشریٰ گوہر کہتی ہیں کہ ’’ سول سوسائٹی نے یہ آواز اٹھائی ہے بچوں کو بچپن ہی سے اس طرح راغب نہ کیا جائے، بندوقوں کی وجہ سے ساری قوم تباہی کی طرف جارہی ہے جو طالبان کا سا کلچر لایا جا رہا ہے تو حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کھلونوں کے علاوہ حکومت کو یوٹیوب کی بجائے انٹرنیٹ پر ایسے مواد کو بھی بند کرنا چاہیے جو نفرت اور تشدد کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔