ہانگ کانگ کے خلاف صفر کے مقابلے میں تین گول کی فتح فلسطین نیشنل فٹ بال ٹیم کے لیے اس لیے بھی تاریخی تھی کہ یہ ان کی پہلی جیت تھی اور تیسری پوزیشن کی چار بہترین ٹیموں میں سے ایک ٹیم کا درجہ حاصل کرکے16 ٹیموں میں شامل ہونے کا موقع تھا۔
دوحہ میں ہونے والے مقابلوں میں فلسطینی کھلاڑی عدی الدباغ دو گول کے ساتھ ہیرو بن گئے اور جب ریفری نے میچ ختم ہونے کی سیٹی بجائی تو فلسطینی کھلاڑیوں اور عملے نے ایک دوسرے کو فرط جذبات سے گلے لگایا اور اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے جشن منایا۔
متحدہ عرب امارات گروپ سی میں متحدہ عرب امارات کی ٹیم فاتح ایران سے دو کے مقابلے میں ایک سے ہارنے کے باوجود دوسرے نمبر پر رہی۔
فلسطین نیشنل فٹ بال ٹیم کب قائم ہوئی؟
فلسطین کی قومی فٹ بال ٹیم کا نام فلسطین فٹ بال ایسوسی ایشن (پی ایف اے) کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کی بنیاد یہودی کھیلوں کی تنظیم ’میکابی ورلڈ یونین‘ کے رہنما یوسف یکوتیلی نے 1928 میں رکھی تھی۔
اس نام کا انتخاب فیفا کی رکنیت کا اہل ہونے کے لیے کیا گیا تھا، جس کے لیے ٹیموں کو اپنے ملک کی آبادی کی نمائندگی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
’منڈیٹری فلسطین فٹ بال فیڈریشن‘ نے، جو براعظم میں ایشین فٹ بال کنفیڈریشن اور دنیا بھر میں فیفاکے زیر انتظام ہے، 1934 میں فٹ بال ورلڈ کپ اور 1938 میں فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈز میں حصہ لیا تھا۔
ایشین کپ میں کامیابی کی اہمیت
فلسطینی ٹیم نے یہ کامیابی ایک ایسے موقع پر حاصل کی ہے جب غزہ کے علاقے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ ہو رہی ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں پر دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
اس جنگ میں کئی کھلاڑی اور عملے کے ارکان اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔
ٹیم کے کپتان مصعب البطاط کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ٹیم کے کھلاڑیوں نے فلسطینی عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہماری حمایت کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ان لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو فلسطین کے اندر اور باہر ہمیں فالو کرتے ہیں۔
میچ کے اختتام سے چند لمحے پہلے خاموشی طاری تھی اور اس جیت کے بعد فضا آزاد فلسطین کے نعروں سے گونج اٹھی۔
ہانگ کانگ اور فلسطین سے زیادہ کسی اور ٹیم نے ایشین کپ کے میچ جیتے بغیر نہیں کھیلے۔ ہانگ کانگ 12 بار اور فلسطین 8 مرتبہ اس مرحلے کے میچ جیت چکے ہیں۔ لیکن یہ فتح دونوں میں سے کسی ایک ٹیم کو 16 ٹیموں کے گروپ میں اپنی جگہ بنانے کا موقع فراہم کرے گی۔
کھیل کے یادگار لمحات
کھیل کے 12 ویں منٹ میں فلسطینی ٹیم اس وقت گول کرنے میں کامیاب ہوئی جب بطاط نے گیند الدباغ تک پہنچائی اور اس نےسر مار کر گیند کو گول میں پہنچا دیا۔
ہانگ کانگ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اس کے سینٹر بیک اور اس میچ کے کپتان ویس نونیز کا بازو زخمی ہوا اور انہیں واپس جانا پڑا جس کے بعد ان کی جگہ لی نگائی ہوئی کو لینی پڑی۔
پورے میچ کے دوران دوحہ کے عبداللہ بن خلیفہ اسٹیڈیم میں موجود ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ شائقین پوری طرح فلسطینی کھلاڑیوں کی ہمت بڑھاتے رہے۔
جب کہ سرخ جرزی میں ملبوس ہانگ کانگ کی ٹیم کے فینز کا ایک پرجوش گروپ بھی اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔
دوسرے ہاف کے چند منٹ بعد ہی فلسطینی ٹیم نے اپنی برتری کو اس وقت دوگنا کر دیا جب بطاط نے گیند زید قنبر کو پاس کی جسے انہوں نے گول میں پھینک دیا۔
فلسطینی ٹیم کو ایک گھنٹے کے بعد تیسرا موقع ملا، تامر صیام نے طویل فاصلے سے گیند دباغ کی جانب پھینکی اور انہوں نے گول کر دیا۔
کھیل کے اضافی وقت کے آٹھویں منٹ میں ریفری شان ایونز نے بطاط کی جانب سے ہینڈ بال پر ہانگ کانگ کو پینلٹی لگانے کا موقع دیا لیکن وہ گول کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
فاتح کوچ مکرم دبوب نے کہا کہ ان کی ٹیم جانتی تھی یہ میچ فیصلہ کن ہو گا، خاص کر موجودہ حالات کے تناظر میں جس سے فلسطینی گزر رہے ہیں۔
کھیل کے اگلے راؤنڈ کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی ٹیم کی صلاحیت پر اعتماد ہے اور دوسرے راؤنڈ میں سب کچھ ممکن ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)