اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری میں اکثریت ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے بعد فلسطین کا پرچم بھی عالمی ادارے کے دیگر رکن ممالک کے جھنڈوں کے ساتھ لہرائے گا۔
اس سلسلے میں ہونے والی رائے شماری میں آٹھ کے مقابلے میں 119 ووٹ اس تجویز کو ملے کہ غیر رکن مبصر ممالک کے پرچم بھی اقوام متحدہ کے صدر اور دیگر دفاتر میں آویزاں کیے جائیں گے۔
فلسطین اور ویٹیکن ہی وہ دو ملک ہیں جو اقوام متحدہ کے غیر رکن مبصر ہیں۔
فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ "آج کی یہ قرارداد فلسطین کی آزادی کے حق میں پرعزم بین الاقوامی اتفاق رائے کا ایک اہم قدم ہے۔"
پچاس سے زائد ریاستوں نے اس بارے میں مسودہ تیار کرنے کی حمایت کی تھی۔ لیکن متعدد ملکوں کا کہنا تھا کہ اس سے اقوام متحدہ کی 70 سالہ اس روایت کی نفی ہوتی ہے جس کے تحت صرف مکمل رکن ممالک کے پرچم ہی یہاں لہرائے جا سکیں گے۔ ان کے بقول فلسطین کے پاس اس روایت کو تبدیل کرنے کے حق میں کوئی ٹھوس دلائل موجود نہیں۔
ویٹیکن یا ہولی سی نے خود کو فلسطین کے اس اقدام سے دور ہی رکھا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی دیرینہ روایت کو برقرار رکھے گا۔
ویٹیکین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے رائے شماری سے ایک روز قبل یہ کہا گیا تھا کہ اگر قرارداد منظور ہو بھی جائے تو بھی ویٹیکن اپنا پرچم لہرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
ویٹیکن کو 1964ء سے اقوام متحدہ کے مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔
فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1974ء میں نمائندگی ملی اور 2012ء میں رائے شماری کے ذریعے اسے غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دیا گیا۔
فلسطین جمعرات کو ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکا کیونکہ مبصر ممالک کو ووٹ کا حق حاصل نہیں ہے۔
اس قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والوں میں امریکہ، اسرائیل، کینیڈا، آسٹریلیا اور بحرالکاہل کے خطے کے چار دیگر ممالک شامل تھے۔
امریکہ کی سفیر سمانتھا پاور نے واشنگٹن کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ دو ریاستی مذاکراتی حل کی حمایت کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "اقوام متحدہ کے صدر دفاتر کے باہر فلسطینی پرچم لہرانا مذاکرات کا متبادل نہیں اور یہ فریقین کو امن کے قریب نہیں لائے گا۔"