|
ترک نژاد امریکی سر گرم کارکن عائشہ نور ایزگی ایگی کی میت کو ترکیہ بھیجے جانے سے قبل پیر کے روز فلسطین کے پرچم میں لپیٹ کر ایک جلوس کے ساتھ مغربی کنارے کے شہر نابلس کی سڑکوں پر لے جایا گیا ۔
جلوس میں شریک سوگواروں نے ان کے تصویر کے ساتھ پوسٹر اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ، " خداکرے ان کا خون آزادی کی راہ ہموار کرے۔"
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ان کے سر میں گولی ماری گئی تھی، اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
دو ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ عائشہ نور کو سر میں گولی لگی تھی — ایک ڈاکٹر وارڈ بسالت، جنہوں نے جائے وقوع پر ابتدائی طبی امداد دی تھی ، اور دوسرے ڈاکٹر فواد نافع، جو قریبی شہر نابلس کے رفیدیہ ہسپتال کے ڈائریکٹر ہیں جہاں ایگی کو لے جایا گیا تھا۔
فلسطینی اور ترک حکام نے بتایا ہے کہ عائشہ نور کو اس وقت گولی لگی جب وہ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کی توسیع کے خلاف ایک ہفتے وار احتجاج میں حصہ لے رہی تھیں۔
SEE ALSO: مغربی کنارہ: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے امریکی خاتون ہلاکاسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے اشتعال انگیزی پر اکسانے والے اس اہم شخص پر گولی چلائی تھی جس نے فوجیوں پر پتھر پھینک کر ایک خطرہ پیدا کر دیا تھا۔
امریکی حکومت نے سیاٹل کی 26 سالہ عائشہ نور ایزگی ایگی کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ واشنگٹن یونیورسٹی سے حال ہی میں گریجویٹ ہوئی تھیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا انہیں اسرائیلی فوجیوں نے گولی ماری تھی۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا تھاکہ وہ ایک امریکی شہری کی ہلاکت سے "بہت پریشان" ہے اور اسرائیل سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات کا تعین کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کر رہا ہے کہ کیا ہوا تھا اور "ہم اس سے ضروری نتائج اخذ کریں گے۔"
ترک وزارت خارجہ کے ترجمان اونکو کیسیلی نے کہا کہ ملک"اس بات کو یقینی بنانے کےلیے ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ہماری شہری کو قتل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔"
ایکس پر شیئر کیے گئے ایک تحریری بیان میں، ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سےکئے گئے اس قتل کی مذمت کرتی ہے۔
فلسطینی حکام نے انہیں سیاٹل سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ سر گرم کارکن بتایا ہے جن کے پاس امریکہ اور ترکیہ کی شہریت تھی۔
عائشہ نور کے اہل خانہ نے انہیں انسانی حقوق کی ایک انتہائی پر جوش کارکن کے طور پر بیان کیا ہے جنہوں نے حال ہی میں غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے لیے امریکی حمایت کے خلاف کالج کیمپس مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے ایکس پر لکھا کہ اس قتل نے "قابض فورسز کی جانب سے روزانہ کیے جانے والے جرائم کے سلسلے میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا ہے۔"
بین الاقوامی برادری مغربی کنارے میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو بڑے پیمانے پر انٹر نیشنل قانون کی خلاف ورزی سمجھتی ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز اور اے پی سے لیا گیا ہے۔