|
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی کمیٹی نے فلسطینیوں کی اقوامِ متحدہ کی مستقل مکمل رکنیت کی درخواست کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ کی طویل عرصے سے اس حوالے سے مخصوص پالیسی رہی ہے جو سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پر منتج ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی فلسطینیوں کی درخواست کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے اجلاس سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کا مؤقف سب کو معلوم ہے جس میں تبدیلی نہیں آئی۔
امریکہ کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے لیے علیحدہ ریاست کی بات کرتا رہا ہے۔
فلسطینیوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت وہ معاملہ ہے جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل کے حصے کے طور پر زیرِ بحث آئے گا۔
تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ امریکہ اس کمیٹی کی متحرک انداز میں معاونت کر رہا ہے۔ ان کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ دو ریاستی حل کا راستہ تلاش کیا جائے جس میں اسرائیلیوں کو امن میسر ہو جب کہ فلسطینیوں کو ان کی الگ ریاست مل سکے۔
اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کا معاملہ سیکیورٹی کونسل سے ہو کر گزرتا ہے اور سیکیورٹی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے امریکہ کے پاس ویٹو کا اختیار موجود ہے۔ کونسل کے ارکان کی مجموعی تعداد 15 ہے اور اقوامِ متحدہ کی رکنیت ان ارکان کی منظوری پر منحصر ہے۔
اسی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی کسی نئے ملک کی رکنیت کے لیے دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
SEE ALSO: فلسطینی ریاست اور سیکیورٹی کونسلواضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ستمبر 2011 میں اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم اس درخواست پر کبھی بھی سیکیورٹی کونسل میں رائے شماری نہیں ہو سکی ہے۔
فلسطینیوں کی درخواست پر جب معاملہ آگے نہ بڑھا تو فلسطینیوں کو جنرل اسمبلی کی ’غیر رکن ریاست‘ کی حیثیت دے دی گئی۔ اس کے بعد ان کو ووٹ کا حق تو حاصل نہیں ہوا۔ لیکن وہ معاہدوں کا حصہ بن سکتے ہیں اور ان کو اقوامِ متحدہ کے ماتحت اداروں جیسے عالمی ادارۂ صحت یا بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں شمولیت کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ان کی 2011 کی درخواست کو ایک بار پھر زیرِ غور لایا جائے۔
اقوامِ متحدہ میں فلسطینیوں کے ایلچی ریاض منصور کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ امید ہے کہ فلسطینیوں کی اقوامِ متحدہ میں 12 برس قبل مبصر کی حیثیت کا سیکیورٹی کونسل جائزہ لے کر اس کو مکمل رکنیت دے گی اور دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کر کے عالمی اتفاقِ رائے کو عملی جامہ پہنائے گی۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی نئی ریاستوں کو رکنیت کی منظوری دینے والی کمیٹی کا اجلاس پیر کو بند دروازوں کے پیچھے ہوا ہے۔ اس کمیٹی کو ہدف دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرئے کہ وہ علاقے جن کو فلسطین قرار دیا جاتا ہے کیا وہ ایک ریاست ہونے کے معیار پر پورا اترتے ہیں اور اس میں ایک متعین علاقہ اور تسلیم شدہ حکومت کا ہونا بھی شامل ہے۔
یہ بھی جانیے
فلسطینی اتھارٹی نے اصلاحات کے مطالبوں کے دوران نئی کابینہ کا اعلان کر دیااسرائیل: مقبوضہ مغربی کنارےمیں 2000 ایکڑ زمین ریاستی ملکیت قرار دینے کا اعلان امریکی نائب صدر کا غزہ میں 'فوری جنگ بندی' پر زورترکیہ اور عرب ممالک کا عالمی عدالت میں اسرائیلی قبضے کو غیرقانونی قرار دینے کا مطالبہاقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق نئے رکن کو امن سے محبت کرنے والا ہونا چاہیے۔
اسرائیل کے اقوامِ متحدہ میں سفیر جلعاد اردان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی امن کی چاہ رکھنے کے بالکل برعکس ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا معاملہ مذاکرات کی میز پر طے ہو سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ یک طرفہ طور پر اسرائیل پر زبردستی اس کو لاگو نہیں کر سکتا۔
اقوامِ متحدہ کی کمیٹی کا ایک اجلاس پیر کو ہوا تھا جب کہ اب اس کمیٹی کی دوسری میٹنگ جمعرات کو ہو گی۔